ایک نیوز نیوز: جرمنی میں پارلیمنٹ پر مبینہ طور پرحکومت گرانے کی سازش کے شبے میں دائیں بازو کے گروپ کے 25 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیم ریخسبرجر کے اراکین کو گرفتار کرنے کےلئے 3 ہزار جرمن اہلکاروں نے 11 ریاستوں میں 130 مقامات پر ریڈز کئے۔
جرمن پراسیکیوٹر آفس نے بتایا کہ سازش کے منصوبے میں ایک سابق جرمنی کے شاہی خاندان کا رکن ہے، جن کی شناخت ہینرخ کے نام سے ہوئی اور جو مستقبل کی ریاست کے سربراہ مقرر کیے گئے تھے، اور دوسرا متشبہ شخص روڈیگر ہے جو عسکری اسلحے کا سربراہ تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہینرخ اپنے نام کے ساتھ شہزادہ کا استعمال کرتا تھا جو ریوس کے شاہی محل سے دیا جاتا ہے، جن کی مشرقی جرمنی کے کئی علاقوں میں حکومت رہی ہے۔
پراسیکیوٹر نے مزید بتایا کہ مذکورہ گروپ دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیم ریخسبرجر کے نظریات سے متاثر ہے، جن کی جدید جرمنی میں جگہ نہیں ہے جبکہ جنگ عظیم دوم میں نازیوں کو شکست کے باوجود ’ڈوئشے ریخ‘ موجود ہے۔
یہ بھی بتایا گیا کہ گرفتار شخص نے روس کے نمائندے سے رابطہ کیا تھا، تاہم روسی نمائندے کی جانب سے کسی مثبت جواب کے شواہد موجود نہیں ہیں۔
جرمنی میں قائم روسی سفارت خانے کے حوالے سے سرکاری خبر ایجنسی نے بتایا کہ جرمنی میں روسی سفارت کار یا قونصل خانے کسی دہشت گرد گروپ اور کسی غیر قانونی گروپوں کے نمائندوں سے رابطے نہیں رکھتے۔
جرمن وزیر داخلہ نینسی فائیسر نے کہا کہ ریاست کے خلاف اس طرح کے اقدامات کو ختم کرنے کے لیے حکومت مؤثر جواب دے گی اور تفتیش میں پتا چلے گا کہ گروپ نے حکومت گرانے کے منصوبے پر کتنی پیش رفت کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ آئینی ریاست بہتر جانتی ہے کہ جمہوریت کے دشمنوں کے خلاف اپنا دفاع کیسے کرنا ہے۔
جرمنی کی داخلی خفیہ ایجنسی کا کہنا ہے کہ ریخسبرجر تحریک سے 21 ہزار افراد جڑے ہوئے ہیں اور ان میں سے 5 فیصد انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق ریوس کا شاہی محل اس سے قبل ہینرخ سے علیحدگی کا اعلان کرچکا ہے اور انہیں متذبذب شخص قرار دے چکا ہے، جو سازشی نظریات پر یقین رکھتے ہیں، تاہم تازہ واقعے کے بعد کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
یاد رہے کہ جرمنی میں ایک صدی قبل ہی بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا تھا جب 14 اگست 1919 کو ویمار آئین نافذ کردیا گیا تھا اور اس کے تحت قانونی مراعات اور جرمن اعزازات ختم کردیے گئے تھے۔