ایک نیوز:ماہرین کاکہنا ہے کہ سونگھنے کی حس کا محرک ہونا یاد داشت کو بہتر بنا سکتا ہے کیونکہ دونوں میں گہرا تعلق ہے۔
جرنل فرنٹیئر اِن نیورو سائنسز میں شائع ہونے والی تحقیق میں محققین نے 60 سے 85 برس کے درمیان 43 صحت مند رضا کاروں کا معائنہ کیا۔ نصف گروہ کو چار ماہ تک ہر رات دورانِ نیند دو گھنٹوں تک سات خوشبوئیں سنگھائی گئیں انہوں نے یادداشت کے زبانی امتحان میں دیگر کی نسبت 226 فی صد بہتر کارکردگی دِکھائی اور یادداشت کو معاون دماغی راہداریوں کے عمل میں بہتری دیکھی گئی اور ان کے دماغ کے اسکین میں بھی فرق دیکھے گئے۔
الزائمرز، پارکنسنز، شرٹزوفرینیا اور ڈپریشن جیسی متعدد اعصابی بیماریاں سونگھنے کی حس کے کمزور ہونے کے بعد وقوع پزیر ہوتی ہیں۔ اور یہ بات عرصہ دراز سے معلوم ہے کہ سونگھنے کی حس کو نقصان پہنچنا، یادداشت کھونے کا سبب ہوسکتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، اِروائن سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے سربراہ مائیکل لیون کے مطابق جیسے جیسے انسان عمر رسیدہ ہوتا ہے اس کی یاد داشت اور سونگھنے کی صلاحیت ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
مائیکل لیون کا کہنا تھا کہ محققین کا خیال ہے کہ آج کی جدید اور آسودہ حال دنیا میں ہر کوئی بوؤں سے محروم ہے۔ حس کا غیر فعال ہونا ان کے دماغ کو متعدد مسائل کے لیے آسان ہدف بنا سکتا ہے۔
مائیکل لیون کا کہنا تھا کہ لوگ اپنی یادداشت کے لیے کچھ بہتر ڈھونڈنے کے لیے بیتاب ہیں۔ یہ ایک چیز ایسی ہے جس میں کوئی محنت نہیں اور انتہائی مؤثر ہے۔