ایک نیوز: کم عمر ملازمہ رضوانہ تشدد کیس میں ڈیوٹی جج ایڈیشنل سیشن جج فرخ فرید بلوچ نے صومیا عاصم کی ضمانت خارج کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیدیا۔
تفصیلات کے مطابق کم عمر ملازمہ رضوانہ تشدد کیس،ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کےجج کی اہلیہ ملزمہ صومیا عاصم کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی،ڈیوٹی جج ایڈیشنل سیشن جج فرخ فرید بلوچ سماعت کر رہے ہیں۔جج کی اہلیہ ملزمہ صومیا عاصم کو عدالت کے سامنے پیش کردیا گیا۔
جج فرخ فرید نے استفسارکیا کہ ملزمہ صومیاعاصم کے خلاف کیس کا ریکارڈ کدھر ہے؟
عدالت نے ملزمہ صومیاعاصم کو روسٹرم پر بلا لیا۔
وکیل ملزمہ نے کہاملزمہ صومیاعاصم جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئی اور اپنی بےگناہی کا اظہار کیا،ریکارڈ میں پولیس نے لکھا کہ ملزمہ صومیاعاصم نے تشدد نہیں کیا،صومیاعاصم نے ملازمہ کو واپس بھیجنے کا بار بار کہا،ڈھائی گھنٹے بچی بس اسٹاپ پر بیٹھی جو اس وقت اٹھ نہیں پارہی تھی، صومیاعاصم نے کم سن بچی کو اس کی ماں کو صحیح سلامت دیا،آج دوپہر کو جے آئی ٹی نے بچی کی ماں کو بلایا ہوا ہے،شام تک انتظار کرلیا جائے تو بہتر ہوگا، جے آئی ٹی کی تفتیش مکمل ہو جائےگی۔
وکیلِ صفائی نے کہا کہ کیا صومیاعاصم کو جیل بھیجا ضروری ہے؟
پراسیکیوشن نے ملزمہ صومیاعاصم کی ضمانت خارج کرنے کی استدعا کردی۔
جج فرخ فرید نے ریمارکس دیئے کہ ملزمہ صومیاعاصم تو ہر حال میں شامل تفتیش ہونے کی پابند ہے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ تفتیشی افسر نے تمام پہلوؤں پر تفتیش نہیں کی،کیا تفتیشی افسر نے وقوعہ کی ویڈیو حاصل کی؟
جج فرخ فرید نے استفسار کیا کہ تاحال کوئی دلیل درخواست ضمانت میں توسیع کرنے کے لیے کافی نہیں۔
وکیل صفائی نے کہا کہ مقدمے کی پہلی پانچ لائنیں ہی جھوٹ پر مبنی ہیں۔
جج فرخ فرید نے ریمارکس دیئے کہ میں یہاں ٹرائل کے لیے نہیں بیٹھا، درخواست ضمانت پر دلائل دیں۔
وکیل صفائی نے کہا کہ جے آئی ٹی مجھے گناہگار قرار دیتے ہیں تو ضرور جیل جانا چاہیے۔
جج فرخ فرید نے استفسار کیا کہ ایسا ممکن نہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے تک سماعت ملتوی کی جائے۔جج فرخ فرید نے درخواست ضمانت پر دلائل دینے کی ہدایت کردی۔
وکیل صفائی نے کہا کہ ہم کہتے ہیں ویڈیو موجود ہے ویڈیو لیں،کیا تفتیشی نے ویڈیو حاصل کی؟بس سٹاپ پر بچی کی 3 گھنٹے کی ویڈیو موجود ہے،کل آخری دن ہے پھر وہ ویڈیو کا ڈیٹا ختم ہو جائے گا پھر کہا جائے گا کہ پتہ نہیں یہ اس کیمرے کی ویڈیو ہے یا نہیں۔
عدالت نے تفتیشی افسر کو ویڈیو لینے کی ہدایت کر دی۔
جج فرخ فرید نے استفسار کیا کہ تفتیشی کا کام دونوں فریقین سے ثبوت حاصل کرنا ہے۔
کمرہ عدالت میں متاثرہ لڑکی کی بس اسٹاپ کی ویڈیو لیپ ٹاپ پر چلا دی گئی۔
وکیل صفائی نے کہا کہ ویڈیو کے مطابق متاثرہ لڑکی اور صومیاعاصم بس اسٹاپ پر موجود تھیں، ویڈیو کے مطابق متاثرہ لڑکی خود گاڑی کا دروازہ کھول کر اترتی ہے،کیس کے ملتوی ہونے سے ہمارے گواہان پر بھی اثرانداز ہونے کا خطرہ ہے،2 گھنٹے بچی بس اسٹاپ پر صحیح سلامت بیٹھی نظر آرہی ہے،بچی ماں کے ساتھ بھی بس اسٹاپ پر بیٹھی ہے اور صحیح سلامت نظر آرہی،الزام ہے کہ سول جج کے گھر گئے تو بچی زخمی تھی اور رو رہی تھی، الزام لگایاگیاکہ بچی کا سر زخمی تھا اور کیڑے پڑے ہوئے تھے،بچی بس اسٹاپ پر ڈھائی گھنٹے بیٹھی رہی اور ایک بار بھی سر نہیں کھجایا۔
وکیل صفائی نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ 24 جولائی کی سرگودھا کی ہے، مقدمہ 25 جولائی کاہے،الزام لگایاگیاکہ بچی پر روز ڈنڈوں سے تشدد ہوتاتھا، بھوکا پیاسا رکھاگیا،بچی سرگودھا بھی جاتی ہے اور مہمانوں سے بھی ملتی ہے،صومیاعاصم کے خلاف من گھڑت کہانی بنائی گئی ہے،تفتیشی افسر نے سرگودھا میں بس اسٹینڈ کی ویڈیو نہیں لی،ویڈیو میں دو کردار اور بھی ہیں جن کی ویڈیو مقامی ہوٹل سے ملی،عدالت سے پہلے صومیاعاصم کا میڈیا ٹرائل شروع کردیاگیا،رپورٹ کے مطابق بچی ہسپتال 3 بجے صبح پہنچتی ہیں، یہ والی رپورٹ کہاں ہے؟طبی رپورٹ کے مطابق 23 جولائی 5 بجے انجری ہوئی۔
وکیل صفائی نے کہا کہ پولیس کو کہاگیاکہ بچی اپنا بیان دینے کے حال میں نہیں،سرگودھا تک بچی بلکل ٹھیک گئی، کوئی ٹریٹمنٹ کی ضرورت نہیں تھی،بچی کو 3 بجے سرگودھا پہنچنے کے بعد طبی معائنے کی ضرورت کیسے اچانک پڑ گئی،اگر گرفتاری کے بعد بھی ضمانت ملنی ہی ہے تو ملزمہ کو جیل نہیں بھیجنا چاہیے،قانون کے مطابق عورت کو ضمانت ضرور ملنی چاہیے،کیس میں حقائق مسخ کیے گئے،جے آئی ٹی کیوں بنی ہے؟ کیا مقصد ہے؟ ممبران کون ہیں؟کیا جے آئی ٹی کے ممبران پولیس افسران ہیں؟جب ممبران پولیس اہلکار نہیں تو جے آئی ٹی میں کیوں شامل ہے؟
جج فرخ فرید نے ریمارکس دیئے کہ ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ جے آئی ٹی کے سامنے دوپہر میں پیش ہوناہے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ میں کس کس کے پاس جاؤں تاکہ اصل حقائق منظرعام پر آئیں،شفاف تفتیش کا مطلب ہی دونوں طرف سے حقائق کو منظرعام پر لانا ہوتاہے،اگر بچی کو مارنا ہی مقصد ہوتاتو بچی صومیاعاصم کے ساتھ کیوں بس اسٹینڈ پر پائی گئی؟بچی تو خود صومیاعاصم کے ساتھ موجود دکھائی گئی،کیا تفتیشی افسر نے بچی کے والدین کو شامل تفتیش کرنے کی توفیق کی؟صومیاعاصم کی تو زندگی کو خطرہ ہوگیاہے، میڈیا پر مجرم بنا دیاگیاہے،بچی کے والدین کو کیوں شامل تفتیش نہیں کیا جارہا؟تاخیرے حربے استعمال کرکےبیان کو تاخیر سے ریکارڈ کروایا گیا.
جج فرخ فرید نےتفتیشی افسر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا موبائل فون کی سی ڈی آر لی گئی ہے؟
وکیل صفائی نے کہا کہ نہیں کال ریکارڈ ڈیٹا کیوں لیں گے؟تفتیشی افسر کو بتایاگیاکہ بچی کو صحیح سلامت بس میں بٹھا دیاگیاتھا،مقدمے میں صحیح سلامت بچی کو بس اڈے پہنچنے کا ذکر نہیں،تفتیشی افسر کڑی سے کڑی نہیں ملا پارہا، جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے،مختار نےکہاکہ مجھے صومیاعاصم نے کال کی اور کہا بچی کو لے جاؤ،والدین اور رشتہ داروں کے پولیس کو دیے گئے بیانات میں تزاد نظر آرہا ہے،بچی کی طبی رپورٹ کے مطابق بچی کو فریکچر نہیں ہے،میڈیا سے سنا ہےکہ بچی کو فریکچر کا شک ہے،اگر شک کا لفظ آجائے تو کیس واضح ہوجاتاہے، حقائق بتانے میں بددیانتی سے کام لیاجارہا۔
وکیل صفائی نے کہا کہ صومیاعاصم پر الزام لگایاکہ بچی کو تیزاب پلایاگیا،بچی کو بس اسٹینڈ پر چھوڑنے صومیاعاصم گئیں تو انہیں پھنسایا گیا،واقعے کا پلان آخر کس کے کہنے پر بنایاگیا؟پولیس نے سائڈ پلان کی تفتیش کرنے کی توفیق نہیں کی،تفتیشی افسر نے واقعے میں ملوث دیگر افراد کا بیان ریکارڈ کرنا گوارہ نہیں کیا،سائڈ پلان میں تین چشم دید گواہ ہیں جنہوں نے بچی کی اصل حالت دیکھی ہے،تینوں چشم دید گواہ صومیاعاصم کے گھر موجود تھے ہی نہیں،جو کہانی بنائی گئی وہ تو جھوٹی ثابت ہورہی، پھر کون سا کیس رہتاہے؟فلم کا ڈائریکٹر جانتاہے کہ سول جج بچی کو تنخواہ دینے کے معاملے میں پھنس سکتاہے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ صومیاعاصم تمام ثبوت پولیس کو دینے کیلئے تیار ہے،7 جولائی کو مالی نے دیکھا بچی باغیچے میں مٹی کھا رہی تھی،الرجی اسی وجہ سے ہوئی،مٹی کھانے کی عادت سے بچی کو الرجی ہوئی جس کی دوائی بھی لے کر دی،فارمیسی کی سلپ بھی موجود ہے جہاں سے جِلد کی الرجی کی دوائی لے کر دی،ملزمہ صومیاعاصم کےخلاف ڈرامہ دراصل سرگودھا میں بنایاگیا،تفتیشی افسر کو آخر صومیاعاصم کی گرفتاری کیوں درکار ہے؟ صومیاعاصم سے کیابرآمد کرنا؟ کچھ ہے ہی نہیں۔
وکیل صفائی نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ صومیاعاصم شاملِ تفتیش ہونے کے لیے ہروقت تیارہیں۔
مدعی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تفتیشی افسر کو ڈکٹیٹ نہیں کیا جاسکتا کہ تفتیش کیسے کرنی ہے،عدالت بھی تفتیشی افسر کو کوئی ڈائریکشن نہیں دے سکتا،کس بنیاد پر صومیاعاصم اپنی ضمانت میں توسیع مانگ رہی ہے،کیا عورت کوئی بھی جرم کرلے اور اس کو ضمانت دے دی جائے؟اگر عورت کو ایسے ہی ضمانتین ملتی رہیں تو معاشرہ ختم ہوجائےگا۔
جج فرخ فرید نے استفسار کیا کہ مرحوم پرویز مشرف کے دور میں ایسا ہی ایک کیس ہوا تھا۔
مدعی وکیل نے کہا کہ الزام لگایاگیاکہ بچی کے والدین نے بلیک میل کیا, کیوں ہوئے بلیک میل؟حقیقت ہے کہ بچی کے والدین سے رابطہ کیاگیا اور پیسوں کی آفر کی گئی،بچی کی طبعی رپورٹ کو تو آج تک صومیاعاصم کے وکلاء نے چیلنج نہیں کیا،اتنے زیادہ زخم ہیں، کیا کوئی والدین اپنی بیٹی کو اتنا زخمی کرسکتے ہیں؟کوئی اتنا تشدد کرسکتاہے لیکن کبھی کوئی ماں باپ اپنی بیٹی پر اتنا تشدد نہیں کرسکتے،ایک بار نہیں ، بچی پر کئی بار تشدد کیاگیا،بچی کے کچھ زخم بھر گئے، کچھ بھر رہے ہیں،کم سن بچی رضوانہ کی عمر 13 سے 14 سال ہے۔
مدعی وکیل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق کم سن بچی کو ملازمہ رکھنا ہی ایک جرم ہے،سول جج اور ان کی اہلیہ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ کم سن ملازمہ رکھنا جرم ہے،ماموں اور بچی کی والدہ کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے۔
پراسیکوٹر وقاص حرال نےدلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق اگر دلائل پختہ دیے جاتے ہیں تو عورت کو ضمانت نہیں ملتی، طبعی رپورٹ کے مطابق بچی رضوانہ کو14 انجریاں ہوئی ہیں،بچی کی کھوپڑی کےدائیں، بائیں اور پچھلے حصے میں انجری ہے،بچی کی آنکھوں، گال، ہونٹوں اور کمر پر بھی انجریاں ہیں،ایک نہیں، بچی کو متعدد انجریاں ہیں، پسلیوں تک انجری ہے،ڈاکٹر نے تو معائنہ کرکے بتانا ہے کہ انجریاں کتنی ہوئی ہیں۔
وکیل صفائی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ فریکچر ہونے کے ایک گھنٹے بعد سوجن ہوتی ہے،طبعی رپورٹ کے مطابق 6 گھنٹے بعد سوجن شروع ہوئی،طبعی رپورٹ مدعی وکیل کے کیس کو سپورٹ کر ہی نہیں رہی،طبعی رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کی انجری ہے،6 ماہ پرانی نہیں۔
جج فرخ فرید نے پراسیکیوشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سچ کو تلاش کرنے میں ڈر نہیں ہونا چاہیے،شواہد ایمانداری سے جمع کریں، پریشر نہ لیں،تفتیش میرٹ پر ہونی چاہیے۔
وکیل صفائی نے جج فرخ فرید سے حفاظتی ضمانت پر مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم حفاظتی ضمانت کے لئے درخواست دینا چاہتےہیں۔
جج فرخ فرید نے استفسار کیا کہ عدالت اس وقت کوئی حفاظتی ضمانت نہیں دے سکتی۔
وکیل صفائی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں حفاظتی ضمانت کی درخواست دینی ہے، تب تک کے لیے آپ کی عدالت درخواست دینا چاہتے ہیں۔
جج فرخ فرید نے بار بار ملزمہ صومیاعاصم کو کمرہ عدالت چھوڑنے کی ہدایت کردی۔
اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری کمرہ عدالت کے باہر موجود ہے۔ملزمہ صومیاعاصم تاحال کمرہ عدالت میں موجود، شدید آبدیدہ ہوگئی۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد صومیاعاصم کی ضمانت خارج کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے کاحکم دیدیا۔