ایک نیوز: نو گو ایریاز سمیت ملک بھر میں بجلی چوری کے خلاف ’پوری قوت‘ سے کریک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ ، پنجاب میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگست میں بجلی کے زائد بلوں کے خلاف عوام کے غصے کا سامنا کرنے والی نگران حکومت ملک بھر میں لوگوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے آپشنز پر غور کر رہی ہے۔وفاقی سیکریٹری برائے پاور ڈویژن راشد محمود لنگڑیال کے زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں ’ بجلی چوری کو پوری قوت سے ختم‘ کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دی گئی ہے۔
اجلاس میں ایکشن پلان کی منظوری دی گئی، جس کا مقصد پاور سیکٹر کے نقصانات ختم کرنا ہے، خاص طور پر کمرشل بجلی چوری کو روکنا ہے، جس کی وجہ سے سالانہ 600 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ملک بھر زیرو ٹالرینس کے ساتھ کریک ڈاؤن ایک یا دو روز میں شروع ہوگا۔
Where do we lose money in power sector ?
— Rashid Langrial (@Rashidlangrial) September 6, 2023
Other than KE, this year, we will sell around 80 billion units in Punjab and Islamabad and 30 billion units in rest of Pakistan.
We will lose PKR 99 billion in Punjab, one billion in Islamabad and 489 billion in rest of Pakistan. pic.twitter.com/EJ5ArJFBQt
اجلاس میں تمام 10 تقسیم کار کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسران، تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز، پولیس سربراہان اور ڈویژن کے دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔حکام نے بتایا کہ وفاقی سیکریٹری نے شرکا کو ریونیو، لائن لاسز (تکینکی اور کمرشل) اور انفرااسٹرکچر کی محدود صلاحیت کے بارے میں بریفنگ دی، جس کے سبب طویل عرصے سے بجلی کا نظام درہم برہم ہے۔انہوں نے بلوں کی ناقص وصولی، بڑے پیمانے پر لائن لاسز، لاقانونیت، بجلی چوروں کی جانب سے مزاحمت، پولیس اور سول انتظامیہ کی طرف سے تعاون کی کمی اور بڑھتے ہوئے نقصانات میں اہم کردار ادا کرنے والے دیگر مسائل کا حوالہ دیا۔راشد محمود لنگڑیال نے پشاور، حیدرآباد، سکھر، کوئٹہ اور ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنیز کی حدود میں بلوں کی ناقص وصولی اور بڑے پیمانے پر بجلی چوری پر تشویش کا اظہار کیا۔
حکام نے مزید بتایا کہ سیکریٹری نے شرکا کو ہر قسم کے نقصانات بالخصوص بجلی چوری کو ختم کرنے اور سول انتظامیہ اور پولیس کے تعاون سے تمام وسائل استعمال کرنے کے حکومتی ایکشن پلان کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔
ڈسکوز کے چیف ایگزیکٹو افسران کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ان علاقوں کی نشاندہی کریں جہاں 11 کے وی ڈسٹری بیوشن لائنوں یا کم ٹینشن کیبلز سے براہ راست بجلی چوری ہو رہی ہے۔اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ بجلی چوری کے خلاف آپریشن میں مزاحمت کرنے والے اور اہلکاروں پر حملہ کرنے والے مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
لیسکو ترجمان کے مطابق وفاقی سیکریٹری نے لیسکو کے ایگزیکٹو انجینئر پر متعدد بجلی چوروں کی جانب سے کنزیومر کورٹ میں حملے کا نوٹس لے لیا۔اسی طرح کے حملوں کی اطلاع دیگر علاقوں سے ملی جہاں لیسکو کے اہلکاروں کو بجلی چوروں نے مارا پیٹا، وفاقی سیکریٹری نے صوبائی چیف سیکرٹریز اور پولیس سربراہان سے کہا کہ وہ ان مجرموں کو گرفتار کرنے اور سزا دینے میں ڈسکوز کی مدد کریں۔اجلاس میں ملک بھر کے ڈسکوز کی تمام سب ڈویژنوں میں فوری طور پر ٹیمیں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا، جس میں سول انتظامیہ اور پولیس کی ٹیمیں شامل ہوں گی۔
مقامی سطح پر بھی کمیٹیوں کی تشکیل کی جائے گی تاکہ ان خواتین سے نمٹا ہوا جاسکے جو بجلی چوری کے خلاف کارروائی پر مزاحمت کرتی ہیں۔حکام نے وضاحت کی کہ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب لیسکو کے سربراہ نے سیکریٹری کو بتایا کہ لاہور کے علاقے شاہدرہ کے محلے کاکے زئی میں جب بھی ٹیمیں غیر قانونی کنکشن منقطع کرنے کے لیے علاقے کا دورہ کرتی ہیں تو خواتین اپنے مردوں اور بچوں کے ساتھ مزاحمت کرتی ہیں۔
حکام نے مزید بتایا کہ اس علاقے میں مبینہ طور پر زیادہ تر رہائشی بجلی چوری میں ملوث ہیں اور وہ لیسکو کی ٹیموں کے لیے تقریبا ’نو گو ایریا‘ بن چکا ہے۔
نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی اور نگران وزیر توانائی محمد علی نے پریس کانفرنس کی جس میں مرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہےکہ بجلی کی بڑھی ہوئی قیمتوں کے عناصر میں بجلی چوری سب سے اہم عنصر ہے۔589 ارب روپے کی بجلی ہر سال چوری ہوتی ہے، توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
وزیر توانائی محمد علی نے کہا کہ پاکستان میں 10 ڈسٹری بیوشن کمپنیاں موجود ہیں،ہر علاقے میں بجلی چوری اور ریکوری کی صورتحال مختلف ہے۔ بجلی چوری کے باعث بجلی کے بلوں کی ادائیگی کرنے والے صارفین کو بجلی کے زیادہ نرخ ادا کرنے پڑتے ہیں۔گھریلو صارفین میں بعض بجلی چوری کرتے ہیں اور بعض بل ہی ادا نہیں کرتے، بجلی چوری روکنے کے لئے کریک ڈاؤن شروع کرنا ہے۔اسلام آباد، لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں 79 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
وزیر توانائی نے کہا کہ صرف پانچ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی 344 ارب روپے کی بلنگ میں سے 100 ارب روپے کا نقصان ہے۔پشاور، حیدر آباد، کوئٹہ، سکھر اور قبائلی علاقہ جات/اے جے کے میں 489 ارب روپے کا نقصان ہے،ان پانچ کمپنیوں کی 60 فیصد ریکوری نہیں ہوتی۔
نگران وزیر توانائی محمد علی کا کہنا ہےکہ ملک بھر میں بجلی کی چوری ہو رہی ہے جس کو روکنا ہو گا تاکہ بجلی سستی مہیا کی جا سکے۔ 589 ارب کی یا تو بجلی چوری کی جا رہی ہے یا بل ادا نہیں کئے جا رہے اور اس کا اثر دیگر صارفین پر پڑتا ہے۔محمد علی کے مطابق ’ جو بجلی کے بل ادا نہیں کرتے ان کے خلاف وزیر اعظم کے حکم پر کریک ڈاون کیا جائے گا۔جب تک بجلی چوری ختم نہیں ہوتی یا بجلی کے بل کی ادائیگیاں نہیں ہوتیں تب تک لوگوں کو سستی بجلی نہیں مل سکے گی۔
نگران وزیر توانائی کے مطابق جن علاقوں میں بجلی کی چوری ذیادہ ہے وہاں کا ڈیٹا ہمارے پاس ہے جس کو استعمال کر کے بجلی کی چوری روکی جائے گی۔ ہر علاقے میں الگ الگ سطح پر بجلی کی چوری ہو رہی ہے۔ہم نے ان افسران کی فہرست بنا لی ہے۔ جو بجلی چوری میں ملوث ہیں یا بل ریکوری نہیں کرتے بجلی کی تقسیم کا کمپنیوں کے ڈسٹری بیوٹرز کو دیکھ رہے ہیں ان میں تبدیلیاں لائی جائیں گی۔
محمد علی کے مطابق بجلی چوری میں ملوث افسران کی فہرست تیار کر کے الیکشن کمیشن کو بجھوا دی ہے تاکہ وہ ان کے تبادلے کی اجازت دے سکے۔ ان افسران کے ملوث ہونے کی وجہ سے ہی کہیں 60 فیصد کہیں 80 فیصد بجلی کی چوری ہو رہی ہے۔