پی ٹی آئی اراکین نے پارلیمنٹ میں جانا ہے یا نہیں ؟ عدالت نے 5 دن کا وقت دے دیا

جن پارلیمنٹ اراکین کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ تو پارلیمنٹ جا کر بیٹھیں۔
کیپشن: جن پارلیمنٹ اراکین کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ تو پارلیمنٹ جا کر بیٹھیں۔

ایک نیوز نیوز:  پاکستان تحریک انصاف کے 10 ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے غیر   آئینی طریقے  سے استعفے منظور کیے جانے کے خلاف درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ  میں کیس کی  سماعت  ہوئی۔

 پی ٹی آئی کی طرف سے وکیل بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی بتائے کہ اسے پارلیمنٹ جانا ہے یا نہیں؟ 
پی ٹی آئی کے10  اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے۔  اگر کوئی اسے تسلیم نہیں کرتا تو پھر ہم پٹیشن کیوں سنیں۔؟ منتخب نمائندوں نے پارلیمنٹ کا جو احترام کرنا تھا وہ نہیں کر رہے ہیں۔ 
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے درخواست گزار  پارلیمنٹ میں جانا چاہتے ہیں لیکن باقی پارٹی کا اپنا فیصلہ ہے۔اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں پارٹی پالیسی کے خلاف نہیں جا رہے ہیں۔ دوسری طرف آپ  یہ کہہ رہے ہیں۔آپ کو پانچ دن دے دیتے ہیں آپ کنڈکٹ سے ثابت کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عوام نے بھروسہ کرکے نمائندوں کو پارلیمنٹ بھجوایا ہے جن کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ پارلیمنٹ جا کر بیٹھیں۔ پی ٹی آئی اپنے استعفوں کی منظوری بھی نہیں مانتی اور پارلیمنٹ میں بھی نہیں جاتی ہے۔درخواست گزار پہلے پارلیمنٹ جائیں پھر عدالت میں آئیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے مشاورت کے لیے عدالت سے مہلت مانگ لی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ 70سال میں عدالتیں بہت زیادہ سیاسی معاملات میں ملوث رہیں جس سے عدلیہ  کو نقصان پہنچا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’دس اراکین اپنے استعفوں کی منظوری کے خلاف درخواست دائر کرکے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں۔  عدالتی فیصلوں سے واضح ہے کہ استعفوں کی منظوری کے لیے خاص طریقہ کار ہے جس کی پابندی لازمی ہے۔ سپیکر نے حکمران جماعت سے مل  کر کے صرف 11 استعفے منظور کیے جس کی آڈیو بھی منظرِ عام پر آ چکی ہے۔ اگر تمام 123 استعفوں کو اجتماعی طور پر منظور نہیں کیا جاتا تو پھر ہم استعفے نہیں دے رہے ہیں اور یہی پارٹی کی پالیسی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ صرف اراکین کے استعفوں کا معاملہ نہیں  ہے بلکہ ان کے انتخابی حلقوں کے لاکھوں ووٹروں کی نمائندگی کا معاملہ بھی ہے۔
 انہوں نے کہا کہ عدالت یہ کیسے قبول کرے کہ یہ اراکین استعفوں کی منظوری کو بھی نہ مانیں اور پھر واپس پارلیمنٹ میں بھی نہ جائیں اور پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کریں۔ عدالت پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دے گی۔یہ لاکھوں ووٹروں کی نمائندگی کا معاملہ ہے اور انکی نمائندگی نہیں ہو پا رہی۔ آپ اس بارے میں واضح موقف اپنائیں اور پھر عدالت میں آ جائیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا دس اراکین اسمبلی سپیکر سے مل کو اپنا موقف دے سکتے ہیں؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے مگر پہلے ان کے استعفوں کی منظوری کو معطل کیا جائے۔