فیض آباددھرناکمیشن کی رپورٹ پرمایوسی ہوئی،چیف جسٹس

فیض آباددھرناکمیشن کی رپورٹ پرمایوسی ہوئی،چیف جسٹس
کیپشن: فیض آباددھرناکمیشن کی رپورٹ پرمایوسی ہوئی،چیف جسٹسفیض آباددھرناکمیشن کی رپورٹ پرمایوسی ہوئی،چیف جسٹس

ایک نیوز:چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےفیض آباددھرناکمیشن کی رپورٹ پرمایوسی کااظہارکیا۔
تفصیلات کےمطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نےفیض آباددھرناکمیشن کیس کی سماعت کی۔جسٹس عرفان سعادت خان اورجسٹس نعیم اخترافغان بنچ کاحصہ تھے۔
اٹارنی جنرل نےکہاکہ دوران سماعت کمیشن ممبران میں سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہ ہوا کمیشن کے سربراہ اختر علی شاہ کو آج کورٹ آنے کا کہا گیا تھا، سربراہ کمیشن کی جانب سے بیمار ہونے کا بتایا گیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کمیشن رپورٹ پربرہمی کااظہارکرتےہوئےریمارکس دئیے کہ میں سمجھ نہیں پا رہا کس لیول کے ذہن نے یہ رپورٹ تیار کی ہے، کمیشن کو معلوم ہی نہیں انکی ذمہ داری کیا تھی، کمیشن نے فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ تیار کردی،پاکستان کا کتنا نقصان ہوا، پاکستان کے نقصان کی کسی کو پرواہ ہی نہیں، آگ لگاو ،مارو یہ حق بن گیا ہے، کمیشن کے دیگر ممبران کہاں ہیں۔
چیف جسٹس نےکہاکہ مجھے تو اس رپورٹ پر مایوسی ہی ہوئی ہے،کیا یہ کمیشن وقت ہی ضائع کرتا رہا، کہتے ہیں بس آگے بڑہو، ماضی سے سیکھے بغیر کیسے آگے جا سکتے ہیں؟ جب پاکستان بنا تھا بتائیں کہاں کسی نے آگ لگائی تھی؟ جو لوگ ماضی سے سبق نہ سیکھیں انہیں سکھایا جانا چاہیے، کمیشن کہتا ہے دھرنا دینے والے نہیں پنجاب حکومت ذمہ دار ہے، ماشاءاللہ۔یہاں ہر جگہ بس آگ لگا دو والی بات ہے۔
جسٹس عرفان سعادت نےریمارکس دئیے کہ لایعنی باتوں پر آگ لگا دی جاتی ہے، کراچی میں کسی بھی معاملے پر کسی کی موٹرسائیکل روک کر آگ لگا دی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نےکہاکہ کمیشن کہہ رہا ہے پنجاب حکومت رانا ثناءاللہ چلا رہے تھے وہی ذمہ دار ہیں، کمیشن نےیہ نہیں بتایاکہ حلف کی خلاف ورزی کس نے کی۔ کمیشن کیسے کہہ سکتا کہ مظاہرین کو پنجاب میں روکنا چاہیے تھا،پرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے، مجھے معلوم نہیں کمیشن کو کس بات کا خوف تھا، انکوائری کمیشن کو لگتا ہے پنجاب حکومت سے کوئی بغض ہے۔
اٹارنی جنرل موقف اختیارکیاکہ کمیشن کا سارا فوکس صرف اس بات پر تھا کہ پنجاب سے اسلام آباد کیوں آنے دیا۔
جسٹس عرفان سعادت خان نےکہاکہ کمیشن نے سارا نزلہ پنجاب حکومت پر گرایا ہے۔
چیف جسٹس نےریمارکس دئیے کہ کمیشن کی مداخلت نہ کرنے پر ساری رپورٹ پنجاب حکومت کیخلاف لکھ دی ہے، کمیشن والے بھی پولیس میں رہ چکے ہیں مگر لگتا ہے پولیس سے ہی کوئی خاص دشمنی تھی،لگتا ہے کمیشن والوں نے اپنے پرانے ساتھیوں سے کوئی سکور برابر کیا ہے، کمیشن کہیں بھی نہیں لکھ رہا مظاہرین نے غلط کیا، اس رپورٹ میں سنجیدگی تو نظر نہیں آرہی۔
اٹارنی جنرل نےکہاکہ کمیشن کو فریم ورک کی سفارشات کاکہا تھا مگر وہ نہیں دیا۔
چیف جسٹس نےکہاکہ کمیشن کا ان پٹ کیا ہے؟ کمیشن کہہ رہا ہے قانون موجود ہیں ان پر عمل کر لیں، بہت شکریہ ، یہ کہنے کیلئے کیا ہمیں کمیشن بنانے کی ضرورت تھی؟ اگر 2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی بھی شاید نہ ہوتا۔
اٹارنی جنرل نےکہاکہ کمیشن نے لکھا نظر ثانی درخواستیں اتفاق سے سب نےدائر کیں اپنی وجوہات پر واپس لیں۔
چیف جسٹس نےکہاکہ ماشا اللہ، یہ لوگ پتہ نہیں پولیس میں کیسے رہے،یہ ایسے ہی ہے کہ چور سے پوچھ لیا تو نے چوری تو نہیں کی، درخواستیں دائر کرنے والے سب لوگوں سے پوچھ تو لیتے، یہ بہت ہی مایوس کن ہے کیوں ملک کا وقت ضائع کیا، کیا کمیشن نے ٹی ایل پی کی طرف سے کسی کو بلایا؟۔شاید ٹی ایل پی والے ان کی معاونت کر دیتے، ان کو بلاتے ہوئے انہیں ڈر لگ رہا تھا،جن سے متعلق انکوائری کر رہے تھے ان کا موقف لے لیتے۔
اٹارنی جنرل نےکہاکہ ان کو بھی نہیں بلایا گیا جن کے پاس سے اسلحہ برآمد ہوا۔
چیف جسٹس نےکہاکہ اسلحہ لانے والوں کی نیت تو واضح تھی کہ وہ پرامن مظاہرین نہیں۔
جسٹس عرفان سعادت خان نےکہاکہ ناشتہ اور کھانے پہنچانے والوں کے تو بیان وئے مگر ٹی ایل پی کے نہیں۔
چیف جسٹس نےکہاکہ کھانا کھلانا تو کوئی جرم نہیں ہے،کیا خوبصورت اتفاق تھا اتنی نظر ثانی درخواستیں دائر ہوئیں، آرکسٹرا کے کنڈکٹر ہوتے ہیں یہاں مگر کوئی کنڈکٹ نہیں کر رہا تھا،کسی نے نظر ثانی کی منظوری دی ہو گی وکیل کیا ہوگا ساری پیپر ٹریل کدھر ہے؟
دھرنا کمیشن کی سفارشات پرچیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس دئیےکہ یہ پانچویں کلاس کے بچوں کو دینے والی چیز ہے، کسی کو کھانا دینا کوئی جرم نہیں ہے، جس کے فعل کی تحقیقات ہو رہی ہیں انہیں موقع تو دینا چاہیے تھا۔
جسٹس عرفان سعادت خان نےکہاکہ کمیشن نے دھرنا دینے والی تحریک لبیک کے علاوہ سب کو طلب کیا۔
چیف جسٹس نےکہاکہ یہ بہت ہی مایوس کن ہے کیوں ملک کا وقت ضائع کیا، ٹی ایل پی کو بلاتے ہوئے انہیں ڈر لگ رہا تھا۔یہ اخبار کا آرٹیکل لگتا ہے کمیشن کو دیا گیا کام یہ نہیں تھا، کوئٹہ کمیشن میں ہم نے بتایا تھا یہ یہ کر لیں، آج بھی اٹھا کر پڑھ لیں کمیشن کا کام کیا ہے، یہ کمیشن والے تو لگتا ہے اپنے آفس سے باہر نکلے ہی نہیں، کمیشن 12 مئی کو اور بعد والے دھرنے کو گول کر گیا۔
اٹارنی جنرل نےکہاکہ گول تو وہ اس ٹی ایل پی والے دھرنے کو بھی کر گئے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےحکم نامہ لکھوایا۔
چیف جسٹس نےریمارکس دئیےکہ آؤٹ آف وے جا کر اس جنٹلمین کو رپورٹ میں بری کیوں کیا جا رہا ہے؟ کمیشن لکھتاہے آرمی کو ان معاملات سے دور رکھنا چاہئے تو معاہدے پر دستخط کیوں کئے،بے شک اجازت بھی ہو ، کیا اجازت تحریری تھی؟ آپ کو سیاست کرنی ہے تو اتر جائیں سیاست میں، کمیشن کو جو کام دیا وہ نہیں کیا باقی پورے پاکستان کو ٹھیک کرنے کی باتیں لکھ دیں۔
جسٹس عرفان سعادت خان نےکہاکہ کمیشن نے لکھا پروموشن اسی کو ملے جس نے ہارڈ ایریا کیا ہو،یہ کس قسم کی بات ہے ، ان کو کچے کے علاقے میں بھیجیں۔
اٹارنی جنرل نےکہاکہ ان کے پاس تو بہت جدید اسلحہ ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نےکہاکہ کیا کمیشن والوں کو انکوائری کیلئے کوئی رقم بھی دی گئی؟
اٹارنی جنرل نےکہاکہ اصل رقم ابھی نہیں بتا سکتا مگر ان کو ادائیگی کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نےکہاکہ کیا کمیشن والوں کو جواب کیلئے بلایا جائے؟ کیا وفاقی حکومت اس رپورٹ کو قبول کرتی ہے؟
اٹارنی جنرل نےکہاکہ میں اس پر وفاقی حکومت سے ہدایات لوں گا،
چیف جسٹس نےریمارکس دئیےکہ کسی کو سنے بغیر رد نہیں کرنا چاہتے، کمیشن کو بھی نوٹس کر کے سن لیتے ہیں، حکومت سے پوچھ کر بتائیں کیا کمیشن رپورٹ ٹی او آرز کے مطابق ہے؟
جسٹس نعیم اخترنےریمارکس دئیے کمیشن نے ابصار عالم کا بیان حلف پر لیا جبکہ فیض حمید کا حلف پر نہیں لیا گیا۔
چیف جسٹس نےکہاکہ کیا کمیشن رپورٹ پبلک ہوگی؟ ابصار عالم رپورٹ سپریم کورٹ میں آ چکی ہے اب سرکار جانے پبلک کرنی ہے یا نہیں۔
اٹارنی جنرل نےموقف اختیارکیاکہ حکومت رپورٹ کا جائزہ لیکر رائے دے گی پھر ہی پبلک کرنے کا فیصلہ ہوگا۔
جسٹس نعیم اخترافغان نےکہاکہ ابصار عالم سے کمیشن نے حلف کے ساتھ بیان لیا تو فیض حمید سے کیوں نہیں؟
چیف جسٹس نےکہاکہ کیا رپورٹ پبلک ہو گی؟ ابصار عالم سرکار کی مرضی ہے، کورٹ میں تو دائر ہو گئی،رپورٹ پر تبصرے پہلے ہو چکے پتہ نہیں کیسے پہلے باہر نکل گئی۔
اٹارنی جنرل نےکہاکہ اگر وفاقی حکومت نے اس رپورٹ کو اپنایا تو ہی پبلک کرے گی۔
چیف جسٹس نےکہاکہ ایک متعلقہ سوال پر آتے ہیں وفاقی حکومت نے ہمارے فیصلے کی روشنی میں قانون سازی کیوں نہ کی،کیا ایک اور 9 مئی کا انتظار ہو رہا ہے،اگر آپ پہلے قانون سازی کیلئے چوکنے ہوتے تو نو مئی نہ ہوتا۔

عدالت کےحکمنامےکےمطابق کمیشن نے 6 مارچ کو 149 صفحات پر مشتمل اور سات والیوم پر مشتمل رپورٹ جمع کرائی، ہماری رائے میں رپورٹ ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق نہیں،حیرانگی کی بات ہے کہ تحریک لبیک کے کسی رکن کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا، کمیشن نے فرض کیا کہ احتجاج کے لئے اسلام آباد کا سفر آئین کے مطابق نہیں تھا، جبکہ سپریم کورٹ کے حکمنامہ میں لکھا تھا پرامن احتجاج حق ہے، کمیشن کی رپورٹ میں صوبائیت کی جھلک نظر آتی ہے۔