ایک نیوز:ایکشن فاراینیمل ہیلتھ کی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں کہ75فیصدنئی اورابھرتی ہوئی متعدی بیماریاں جانوروں سے پیداہوتی ہیں۔ا دارے نے پاکستان میں جانوروں کی صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری ،ویٹرنری ماہرین کی تعداد بڑھانے اورادویات، ویکسی نیشن کی پیداواری صلاحیت بڑھانے پر زور دیا ہے۔
تفصیلات کےمطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں ورکنگ اینیملز کی صحت پرکام کرنے والے دارے بروک کی جاری کردہ رپورٹ کےمطابق پاکستان میں جانوروں کی صحت کی خدمات میں عالمی عدم توازن ہے۔ برطانیہ کی131 ملین کے مقابلے پاکستان میں جانوروں کی آبادی کا تخمینہ1 بلین لگایا گیا ہے لیکن پاکستان میں برطانیہ کے مقابلے میں رجسٹرڈ ویٹرنری ڈاکٹروں کی تعداد نصف ہے۔
جانوروں کی صحت کی خدمات نہ صرف صحت عامہ بلکہ ملک کی معاشی ترقی کیلئےبھی ضروری ہیں۔80 لاکھ سے زیادہ دیہی خاندان گلہ بانی کے پیشے سے وابستہ ہیں جس سے وہ اپنی گھریلو آمدنی کا35-40 فیصد سے زیادہ حاصل کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ایک لاکھ مویشیوں کی صحت کی جانچ کیلئے صرف ایک ویٹرنری ڈاکٹرمیسر ہے۔
بروک پاکستان کے پروگرام مینیجرڈاکٹر جاوید گوندل کا کہنا ہے کہ جانوروں کی صحت اور بہبود کو بہتر بناناپاکستان میں پائیدار ترقی اور غربت میں کمی کیلئے بہت ضروری ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ”ایکشن فار اینیمل ہیلتھ“پالیسی بریف میں دی گئی سفارشات ان اہداف کو حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
اینیمل ویلفیئر الائنس کی سربراہ اور بروک میں گلوبل اینیمل ہیلتھ، ویلفیئر، کمیونٹی ڈیولپمنٹ اور ریسرچ کی سربراہ ڈاکٹر کلارا کہتی ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق 60 فیصد پرانی اور75 فیصد نئی یا ابھرتی ہوئی متعدی بیماریاں جانوروں سے پھیلتی ہیں، جانوروں کی صحت کے شعبے میں کم سرمایہ کاری کی وجہ سے ویٹرنری افرادی قوت، ادویات اور ویکسین کی کمی اور بیماریوں کی نگرانی میں خلا پیدا ہوا ہے۔
رپورٹ میں پیش کی گئی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ جانوروں کی صحت کی تعلیم کے نصاب میں احتیاطی ویٹرنری ادویات، ریوڑ کی صحت، اور تکمیلی اور متبادل ویٹرنری ادویات کے انضمام پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کے معیار کو تو دیکھا جاتا ہے مگر کوالیفائی کرلینے کے بعد پرائیویٹ سیکٹر میں کوالٹی کنٹرول کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان انسانی اور جانوروں کی صحت سے متعلق ادویات اور ویکسین کی تیاری، درآمد، برآمد، ذخیرہ، تقسیم اور فروخت کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قائم کی گئی تھی، لیکن نگرانی کے نظام میں خامیاں باقی ہیں۔