ایک نیوز : جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ دنیا کے سامنے ہماری عدلیہ کی تصویر کیسے پیش کی جاتی ہے کہ جب کسی کو اقتدار میں لانا ہو تو ایک ہفتے میں ایک سو مقدمات ختم ہوجاتے ہیں اور اقتدار سے ہٹانا ہو تو ایک سو مقدمات بن جاتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ریاست کی اہمیت کو سمجھیں اور ریاست میں رہنے والی قوم کو سمجھیں، آئین ہمارے نزدیک ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے جس وقت یہ آئین بنایا گیا اس وقت ملک ٹوٹ چکا تھا۔
انہوں نےکہا فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کی تو ملک کی سیاست دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی ایک طرف تمام جماعتیں شریک تھیں، ایوب خان سے مذاکرات ہوئے اور دو باتوں پر اتفاق ہوگیا، ملک کے اندر پارلیمان طرز کی حکومت ہو اور قوم کو ووٹ کا حق دیا جائے ذوالفقار بھٹو کا کہنا تھا کہ صدارتی طرز حکومت ہو 1973ء میں مستقل آین بنا تو ذوالفقار بھٹو بھی پارلیمانی طرز حکومت پر متفق ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آئین نہیں ہے تو کوئی صوبہ نہیں ہے اس لیے آئین کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں آئین بھی محفوظ نہیں رہا آج بھی میں یہی سوال کر رہا ہوں پاکستان مسلم لیگ سے بھی اور پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی کہ جو آپ کا مینڈیٹ 2018ء میں تھا تقریباً کچھ اوپر نیچے آج بھی وہی ہے ہم نے اُس وقت بھی دھاندلی کو قبول نہیں کیا تھا اور آج بھی قبول نہیں ہے یہاں پارلیمنٹ کا نظام ہی چلے گا ورنہ نہیں چلے گا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ یہی ہمارا آج بھی اختلاف رائے ہے کہ فیصلے عوام کو کرنے ہیں یا ہماری اسٹیبلشمنٹ کو کرنے ہیں قانون سازی عوام کو کرنی ہے یا پیچھے سے ڈکٹیٹ ہونی ہے؟