ایک نیوز:نیب ترامیم کیس کالعدم قراردینےکیخلاف حکومتی اپیلوں پرعدالت نےفیصلہ محفوظ کرلیا۔
تفصیلات کےمطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا ہے ،جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بنچ کا حصہ ہیں۔
بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےوکیل خواجہ حارث سےاستفسارکیاکہ کونسا بنیادی حق نیب ترامیم سے متاثر ہوا ہے۔
عدالتی معاون وکیل خواجہ حارث کےدلائل
وکیل خواجہ حارث نےدلائل میں بتائیں کہ مرکزی کیس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تفصیل سے بتا چکا ہوں،نیب ترامیم آرٹیکل 9،14،25 اور 24 کی خلاف ورزی ہیں،مشرف سے پہلے بھی احتساب بیورو موجود تھا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےریمارکس میں کہاکہ صرف منتخب پبلک آفس ہولڈر پر نیب کا اختیار کیوں رکھا گیا، غیر منتخب پبلک آفس ہولڈر پر کیوں نیب کا اختیار نہیں رکھا گیا؟
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ کیا آپ صرف سیاسی احتساب چاہتے ہیں؟
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ ہم نے نیب آرڈیننس 1999 چیلنج نہیں کیا،ہم نے نیب ترامیم 2022 چیلنج کی تھیں۔ نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت بینچ پر اور انٹرا کورٹ اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا ، سپریم کورٹ میں مرکزی درخواست قابل سماعت تھی۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےاستفسارکیاکہ نیب ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں اورکیا آپ کو نیب پر مکمل اعتماد ہے ۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ میں دلائل دوں گا کہ اقلیتی رائے درست نہ تھی ۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ کیا آپ 90 دنوں میں نیب ریمانڈ سے مطمئن ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےاستفسارکیاکہ کیا آپ 500 ملین سے کم کرپشن پر بھی نیب کی کارروائی کے حامی ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نےدلائل میں موقف اختیارکی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست ہائیکورٹ بار نے دائر کی تھی ۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ ہمارے پاس ہائیکورٹ کا ریکارڈ آگیا ہے وہ پی ٹی آئی کے لوگ تھے ، شعیب شاہین صاحب نے حامد خان کے ذریعے درخواست دائر کر رکھی ہے ۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ حامد خان کے پاس کوئی پارٹی عہدہ نہیں تھا ۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ شعیب شاہین صاحب نے ہائیکورٹ سے یہ کہہ کر التوا لیا تھا کہ ہمارا کیس اب سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے ۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ سپریم کورٹ میں ہم درخواست جون 2022 میں دائر کر چکے تھے، ہائیکورٹ میں درخواست جولائی میں دائر ہوئی ۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس میں کہاکہ سپریم کورٹ میں کیس لگنے سے پہلے ہائیکورٹ معاملہ پر اٹارنی جنرل کو نوٹس کر چکی تھی، آپ سپریم کورٹ میں پہلی سماعت پر کہہ سکتے تھے کہ اب ہائیکورٹ میں کیس شروع ہو چکا ہے۔ہائیکورٹ بار کے صدر سپریم کورٹ کو آکر کہہ سکتے تھے کیس ہائیکورٹ میں چلنے دیں یا میری درخواست بھی یہاں منگوا لیں، شعیب شاہین اور بانی پی ٹی آئی کا آپس میں تعلق نہیں ہو گا،تو ہم کہتے چلو دونوں کو ایک دوسرے کی درخواست کا علم نہیں تھا۔ انصاف نا صرف ہونا چاہئے بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے، اگر میں نے غلطی کی تو مجھ پر انگلی اٹھائیں، دنیا کی رینکنگ میں پاکستان کا نمبر اسی وجہ سے گراوٹ کا شکار ہے، اس طرح کے حکم امتناع سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں،میری رائے ہے کہ قانون معطل نہیں ہوسکتا ،نیب ترامیم اتنا خطرناک تھا تو اسے معطل کردیتے۔ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بنا تو میں عدالت میں بیٹھنا ہی چھوڑ دیا، اس وقت یہ بحث چل رہی تھی کہ اختیار میرا ہے یا کسی اور کا،باہر جاکر بڑے شیر بنتے ہیں، سامنے آکر کوئی بات نہیں کرتا،اصولی موقف میں سیاست نہیں ہونی چاہئے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ سپریم کورٹ کے جج مانیٹرنگ جج تھے، اس کیس میں جے آئی ٹی تھی، جس میں حساس ادارے بھی تھے۔ بتائیں اس کیس کا کیا بنا،اس کیس میں آپ وکیل تھے۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ حساس اداروں کی جے آئی ٹی میں شمولیت کے باوجود بھی کچھ ثابت نا ہوسکا۔
جسٹس جمال مندوخیل نےریمارکس دئیےکہ اگر کسی نے گھر بنایا اس کے پاس رسید نہیں ہوگی،کیا رسید مانگنا کسی کو بلیک میل کرنے کے مترادف نہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ جو آپ کے مرکزی کیس میں کلائنٹ تھے اگر انہیں آج کہہ دیں کہ تمام اثاثوں کا جواب دیں تو آپ کیلئے مشکل ہوجائے گا۔
اگر آپ اتنے ہی ایماندار تھے تو ایمنسٹی کیوں دی، چیف جسٹس کا بانی پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ برطانیہ کی مثال دی جاتی ہے بتائیں وہاں کیوں ایمنسٹی نہیں دی جاتی۔
نیب ترامیم کالعدم قراردینےکےکیس میں بریک کےبعددوبارہ سماعت شروع ہوگئی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ خواجہ صاحب اور کتنا وقت چاہیے۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ مجھے دو گھنٹے چاہیے۔
جسٹس مندوخیل نےکہاکہ کیا ترامیم کرنا پارلیمنٹ کا اختیار نہیں تھا۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ اسفند یارولی کیس میں سپریم کورٹ نیب کی تمام شقوں کا جائزہ لے چکی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ اگر پی سی او نہ ہوتا تو شاید تب پورا نیب قوانین اڑا دیا جاتا، وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے ایک لسٹ جمع کرائی تھی،لسٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2019 میں اس وقت کی حکومت نے نیب ترامیم کی تھیں،مخدوم علی خان کے مطابق وہ ترمیم کریں تو غلط اگر پی ٹی آئی کرے تو ٹھیک ہے۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ 2019 کی ترامیم پر بعد میں بات کرونگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہاکہ جو مقدمات نیب سے نکلیں گے وہ کہاں جائیں گے؟
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ نیب ہمیں ایک فہرست دے کہ کون سے مقدمات کس کس عدالت کو منتقل ہوں گے؟
جسٹس امین الدین خان کہاکہ کون کون سے جرائم ہیں جن کو ترامیم میں ختم ہی کر دیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ ملک میں ایف بی آر پہلے ہی موجود ہے وہاں ایف بی آر کے معاملے پر آپ ایمنسٹی دے دیتے ہیں،الیکشن کمیشن نے اثاثوں کے الگ گوشوارے بنا رکھے ہیں، انکم ٹیکس کی تفصیل کیوں نہیں مانگی جاتی اس طرف کیوں نہیں جاتے؟
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ آپ کو آئین سے بتانا ہوگا ترامیم سے حقوق کیسے متاثر ہوئے؟ ترامیم سے تو نیب سے ڈریکونین اختیارات واپس لیے گئے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس دیتےہوئےکہاکہ آپ نے گولڈ رولیکس پہنی ہو تفیشی آپ سے پوچھے کہاں سے لی تو سارا بوجھ آپ پر آجائے گا، تفتیشی کا کام تو آسان ہو گیا، ایمینسٹی سکیم دینا کیا نیب قانون کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ آپ کیوں چاہتے ہیں کارروائی ہر معاملے پر نیب ہی کرے نیب پر اتنا اعتبار کیوں؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ آپ کو ہمیں دکھانا ہوگا ترامیم میں غیر آئینی کیا تھا؟
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ پارلیمنٹ نے اثاثوں کی سیکشن کو صرف سٹرکچر کیا چاہتی تو اسے حذف بھی کر دیتی۔ کیا برطانیہ میں نیب جیسا ادارہ ہے؟ پھر نیب پر آپ کو اتنا اعتماد کیوں ہے۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ نیب قانون اور اسے چلانے والوں میں فرق ہے، مجھے نیب پر اعتماد نہیں میں قانون کی بات کررہا ہوں، دوسرے خلیفہ سے ان کے کرتے کا سوال پوچھا گیا تھا۔
جسٹس جمال خان نےکہاکہ ہمارے خلیفہ سے عام آدمی نے پوچھا تھا،عام آدمی آج بھی پوچھ سکتا ہے۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ عام آدمی تو بیچارہ کمزور ہوتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہاکہ آپ عوام کی طاقت، ووٹر کی طاقت کو کمزور کیوں کہہ رہے ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ 9اے 5 کو ترمیم کے بعد جرم کی تعریف سے ہی باہر کردیا گیا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ جسٹس منصور نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ کیسز دیگر فورمز پر جائیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ ایمنسٹی پارلیمنٹ نے نہیں دی تھی۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ ایمنسٹی سے فوجداری پہلوختم نہیں ہوا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہاکہ اربوں کی جائیداد کا غبن کرکے کروڑوں روپے کی رضاکارانہ واپسی کا اختیار بھی ایمنسٹی ہے۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ ایمنسٹی حکومت کی پالیسی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہاکہ ایمنسٹی سے حکومت جو کام ختم کرسکتی ہے وہ کام پارلیمنٹ کیوں ختم نہیں کرسکتا۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ رضاکارانہ رقم واپسی پر عملدرآمد سپریم کورٹ نے روک رکھاہے، رضاکارانہ رقم واپسی اور پلی بارگین کی رقم کا تعین چیئرمین نیب کرتاہے۔
وکیل خواجہ حارث نےبحریہ ٹاؤن کراچی کیس کا حوالہ دیا، بحریہ ٹاؤن کیس میں پلی بارگین ہوئی تھی یا رضاکارانہ رقم واپسی؟ 460 ارب روپے کے عوض سپریم کورٹ نے ریفرنس ختم کردیےتھے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ اگر تمام مقدمات متعلقہ فورم پر چلے جائیں تو کیا کوئی اعتراض ہے؟
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ نیب ترامیم کالعدم کیے بغیر مقدمات منتقل نہیں ہوسکتے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ نیب کی 2023 ترامیم مقدمات منتقلی کے حوالے سے تھیں، سپریم کورٹ میں مقدمہ کے دوران منتقلی سے متعلق نیب ترمیم کا جائزہ نہیں لیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ ممکن ہے نیب ترامیم کا آپ کے مؤکل کو فائدہ ہو، خواجہ صاحب آپ کا ریکارڈ ہے، کیس ترپن سماعتوں میں سنا گیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہاکہ ایک شخص آیا اس نے آئین کو روند کر نیب قانون بنادیا۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ قانون کو اسفندیارولی کیس میں درست قرار دیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہاکہ اراکین پارلیمنٹ نیب سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ ریمانڈ 90دنوں سے کم کرکے 14 دن کرنا درست تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہاکہ کل پارلیمنٹ دوبارہ قانون بنالے تو کیا ہوگا،میری خواہش ہے اگر مارشل لاء نا لگتا تو نیب قانون ہی نا ہوتا۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ پارلیمنٹ عوام کی امین ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ پھر کیا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا درست تھا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ ہم نے تو نظریہ ضرورت کو بھی زندہ کیا، پارلیمنٹ تحلیل کرنے کو بھی جائز قرار دیا۔
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا سیاسی فیصلہ تھا جو درست نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہاکہ بانی پی ٹی آئی دلائل کیلئے آئے تو پوچھیں گے کہ وہ نیب سے مطمئن ہیں یا نہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ نیب نے آج تک تمام بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔نیب سے پہلے احتساب ایکٹ تھا وہ بھی ایسا ہی قانون تھا، احتساب ایکٹ کو بھی سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ کیا پارلیمان منشیات کا قانون ختم کر سکتی ہے؟
وکیل خواجہ حارث نےکہاکہ پارلیمان کچھ قوانین بنا نہیں سکتی نہ کچھ کو ختم کر سکتی ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ پارلیمان سپریم ہے، وہ قانون بنا سکتی ہے ختم بھی کر سکتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نےریمارکس میں کہاکہ میری نظر میں سپریم آئین ہے جس کے سب تابع ہیں، سپریم کا لفظ آئین میں صرف سپریم کورٹ کیلئے استعمال ہوا ہے۔
کیا آپ ہمیں سن سکتے ہیں،چیف جسٹس کا بانی پی ٹی آئی سے مکالمہ
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ کیا آپ کیس سے متعلق کچھ ایڈ کرنا چاہتے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی نےکہاجی بلکل میں آپ کو سن رہا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ پلیز آپ کیس سے متعلق ہی بات کیجئے گا، ہم صرف موجودہ کیس پر ہی رہنا چاہتے ہیں، آپ جیل میں اپنے حالات سے متعلق گفتگو کرنے لگ جاتے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی نےکہاکہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں، کیا آپ بتا سکتے ہیں میں نے پوائنٹ سکورنگ کی۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ اس کا فیصلہ ہوچکا۔
بانی پی ٹی آئی نےکہاکہ آپ کے بیان سے لگتا ہے میں غیر ذمہ دار شخص ہوں کوئی غلط بات کردوں گا، میں ایسا کوئی خطرناک آدمی نہیں ہوں۔
جسٹس امین الدین نےکہاکہ خان صاحب آپ کو غیر ضروری ریلیف ملا، آپ صرف کیس پر رہیں،
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ ججز اپنے فیصلوں کی خود وضاحت نہیں کرتے، آپ صرف کیس پر رہیں،جج اپنے فیصلے کی وضاحت نہیں دیا کرتے، آپ نظیر ثانی دائر کرسکتے۔
بانی پی ٹی آئی نےکہاکہ میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیل کی مخالفت کرتاہوں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم ہوئیں تو میرا نقصان ہوگا، مجھے 14 سال کی قید ہوگئی کہ میں نے توشہ خانہ تحفےکی قیمت کم لگائی، دو کروڑ روپے کی میری گھڑی تین ارب روپے میں دکھائی گئی، میں کہتاہوں نیب کا چیئرمین سپریم کورٹ تعینات کرے۔
آپ اپنے کیس پر رہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بانی پی ٹی آئی کو ہدایت
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ عمران خان صاحب ان ترامیم کوکالعدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، آپ نے میرا نوٹ نہیں پڑھا شاید، نیب سے متعلق آپ کے بیان کے بعد کیا باقی رہ گیاہے،عمران خان آپ کا نیب پر کیا اعتبار رہےگا؟
بانی پی ٹی آئی نےکہاکہ میرے ساتھ 5 روز میں نیب نے جو کیا اس کے بعد کیا اعتبار ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہاکہ جیل میں جا کر تو مزید میچورٹی آئی ہے۔
بانی پی ٹی آئی نےکہاکہ ستائیس سال قبل بھی نظام کا یہی حال تھا جس کے باعث سیاست میں آیا، غریب ملکوں کے سات ہزار ارب ڈالر باہر پڑے ہوئے ہیں، اس کو روکنا ہوگا۔میں اس وقت نیب کو بھگت رہا ہوں ۔
عدالت نےکہاکہ کیا نیب ایسے ہی برقرار رہے گی ۔
بانی پی ٹی آئی نےکہاکہ نیب کو بہتر ہونا چاہیے ، کرپشن کے خلاف ایک اسپیشل ادارے کی ضرورت ہے ۔میں جیل میں ہی ہوں ترمیم بحال ہونے سے میری آسانی تو ہو جائے گی ملک کا دیوالیہ ہو جائے گا ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے بانی پی ٹی آئی کو چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تعیناتی کا معاملہ یاد کرا دیا ۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہاکہ کچھ بھی ہوگیاتو ہمیں شکوہ آپ سے ہوگا،ہم آپ کی طرف دیکھ رہے، آپ ہماری طرف دیکھ رہے۔
بانی پی ٹی آئی نے سائفر کیس کا حوالہ دینا چاہا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے روک دیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ سائفرکیس میں شاید اپیل ہمارے سامنے آئے۔
بانی پی ٹی آ ئی نےکہاکہ میں زیرالتوا کیس کی بات نہیں کررہا۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ ہمارا یہی خدشہ تھاکہ زیرالتوا کیس پر بات نہ کردیں۔
جسٹس حسن اظہرنےبانی پی ٹی آئی نےاستفسارکیاکہ آپ نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کیوں نیب بل کی مخالفت نہیں کی؟
بانی پی ٹی آئی نےکہاکہ یہی وجہ بتانا چاہتاہوں کہ حالات ایسے بن گئے تھے،شرح نمو چھ عشاریہ دو پر تھی، حکومت سازش کے تحت گرا دی گئی، پارلیمنٹ جا کر اسی سازشی حکومت کو جواب نہیں دے سکتاتھا،اس وقت ملک معاشی بحران کا شکار ہے، باہر سے جو ترسیلات زر آتی ہیں اشرافیہ باہر بھیج دیتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ آپ دو چیزوں کو مکس کررہے ہیں،ہم سیاسی بات نہیں کرنا چاہ رہے تھے مگر آپ کو روک نہیں رہے ، ڈائیلاگ سے کئی چیزوں کا حل نکلتا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ فاروق نائک صاحب آپ کی بھی ذمہ داری ہے، ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں مگر آپ سیاستدان بھی احساس کریں۔
فاروق ایچ نائیک نےکہاکہ ہم نے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ خان صاحب آپ سارا دن بہت تحمل سے بیٹھے، نیب نے ریکوڈک کیس میں 10 ارب ڈالر کی ریکوری کیسے لکھ دی۔
نیب پراسیکوٹرنےکہاکہ یہ ہماری ان ڈائریکٹ ریکوری تھی ۔
ہم ایسی غلط دستاویز دائر کرنے پر آپ کو توہین عدالت کا نوٹس کریں گے، چیف جسٹس کا نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ کدھر ہیں پراسیکیوٹر جنرل کیسے یہ غلط دستاویز پیش کیں۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کی سرزنش کردی۔
بانی پی ٹی آئی کے دلائل مکمل ہوگئے۔
عدالت نے نیب کی جمع کروائی گئی رپورٹ کو مسترد کر دیا ۔نیب پراسکیوٹر اگلی سماعت میں پیش ہوں۔
عدالت نے نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف حکومتی اپیلوں پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔