ایک نیوز: آڈیو لیکس کیس، چیف جسٹس سمیت تین ججز پر اعتراض کرنے والی حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ آڈیو لیکس کیس میں ہم نے تمام فریقین کو سن لیا ہے،ہم اس درخواست پر سوچ بچار کریں گے۔
رپورٹ کے مطابق آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف دائرآئینی درخواستوں پرسماعت ملتوی کردی گئی ۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت مکمل کرلی سپریم کورٹ نےآڈیو لیکس کمیشن کوکام سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کردی ۔وفاقی حکومت نے چیف جسٹس سمیت تین ججز پر اعتراض کرتے ہوئے بنچ سے الگ ہونے کی استدعا کررکھی ہے جس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے ہیں کہ جج کو توہین عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جاسکتا ہے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ بڑا آسان ہے۔ اب کسی جج کو کیس سے ہٹانا ہے تو اس کے نام سے آڈیو بنا دو۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ سماعت کررہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل ہیں، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بھی بنچ کا حصہ ہیں، حنیف راہی نے کمیشن کیخلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کررکھی ہے۔
حنیف راہی نے روسٹرم پر آکر کہا کہ میری توہین عدالت کی درخواست پر ابھی تک نمبر نہیں لگا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ توہین کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے۔ آپ کی درخواست پر اعتراضات ہیں تو دور کریں۔ آپ یہ بھی سمجھیں کہ کس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ جج کو توہین عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جا سکتا۔
اٹارنی جنرل دلائل کے لیے روسٹرم پر آگئے۔اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھ کر سنا دیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کس پوائنٹ پر بات کرنا چاہیں گے؟ آپ ایک چیز مس کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان ایک آئینی عہدہ ہے۔ مفروضہ کی بنیاد پر چیف جسٹس کا چارج کوئی اور نہیں استعمال کر سکتا۔ اس کیس میں چیف جسٹس دستیاب تھے جنہیں کمیشن کے قیام پر آگاہ نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس کے علم میں نہیں تھا اور کمیشن بنا دیا گیا۔ ان نکات پر آپ دلائل دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ عدالتی فیصلوں کے حوالے پڑھنے سے پہلے قانون کو سمجھیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پہلے بنچ کی تشکیل پر دلائل دوں گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس پوائنٹ پر جا رہے ہیں کہ ہم میں سے تین ججز متنازعہ ہیں؟ اگر اس پر جاتے ہیں تو آپ کو بتانا ہوگا کہ آپ نے کس بنیاد پر فرض کر لیا کہ ہم میں سے تین کا کنفلکٹ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں چاہوں گا کہ آپ دوسروں سے زیادہ اہم ایشو پر فوکس کریں۔ دوسرا اور اہم ایشو عدلیہ کی آزادی کا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ واہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا ہے۔ پہلے ان آڈیوز پر ججز کی تضحیک کی پھر کہا اب ان آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کروا لیتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہ تو بڑا آسان ہوجائے گا کسی بھی جج کو کیس سے ہٹانا ہے تو اس کے نام لیکر آڈیو بنا دو۔ کیس سے الگ ہونے کے پیچھے قانونی جواز ہوتے ہیں۔ یہ آپشن اس لیے نہیں ہوتا کہ کوئی بھی آکر کہہ دے جج صاحب فلاں فلاں کیس نہ سنیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت اسی لیے اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں۔ کیا حکومت نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کون کر رہا ہے؟
اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ حکومت کمیشن کے زریعے اس معاملے کو بھی دیکھے گی۔ کالز کیسے ریکارڈ کی گئیں۔ کمیشن کے ذریعہ تمام عوامل کا جائزہ لیا جائے گا۔ ابھی تو یہ معاملہ انتہائی ابتدا کی سطح پر ہے۔ وفاقی حکومت کے مطابق یہ آڈیوز مبینہ آڈیوز ہیں۔ وفاقی حکومت کا یہی بیان دیکھا جانا چاہیے۔ کابینہ کے علاوہ کسی وزیر کا ذاتی بیان حکومت کا بیان نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر وزیر خزانہ کچھ بیان دے تو وہ بھی حکومت کا نہ سمجھا جائے؟ اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ کوئی معاملہ اگر سپریم کورٹ کے تمام ججز سے متعلق نکل آئے پھر یہ نظریہ ضرورت پر عمل ہوسکتا ہے۔ اگر تمام ججز پر سوال ہو پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب کسی نے تو سننا ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ کوئی بھی شخص اپنے کاذ کا خود جج نہیں ہوسکتا۔ ہماری اس سارے معاملہ پر کوئی بدنیتی نہیں ہے۔ بنچ تبدیل ہونے سے کمیشن کے خلاف عدالت آئے۔ درخواست گزاروں کا حق متاثر نہیں ہوگا۔ استدعا ہے کہ بنچ تبدیلی کی درخواست کو زیر غور لائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا اعتراض دو اور ججز پر بھی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری درخواست کا متن آپ کے سامنے ہے۔ اس کا جائزہ لے لیں۔ بینچ تبدیلی کی حکومتی درخواست پر اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے۔
درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین کے دلائل شروع ہوگئے۔