ایک نیوز:آئے دن بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے، بیشتر اشیاء خورد و نوش بھی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔
تفصیلات کےمطابق مہنگائی سے پریشان عوام کی یہ ہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ روز مرہ کے معمولات زندگی میں ضروری اشیاء کے سستے متبادل حل تلاش کرکے اپنے ماہانہ بجٹ کو کسی نہ کسی طرح کنٹرول کر سکیں۔
کفایت شعاری کی اسی کوشش میں اب بیشتر افراد کھانا پکانے کیلئے گھی اور تیل کےبجائے مرغی، گائے، بھینس اور بکرے کے گوشت سے نکلنے والی چربی کا استعمال کر رہے ہیں، جو کہ انتہائی مضر صحت ہے۔
وہ تمام چکنائیاں جنہیں سیچوریٹڈ فیٹس کہا جاتا ہے ان میں گھی، مکھن، دیسی گھی اور چربی شامل ہیں ان کا ضرورت سے زیادہ استعمال صحت کیلئے نقصان دہ ہے۔
سیچوریٹڈ فیٹس وہ چکنائی ہے جو عام درجہ حرارت یا ٹھنڈی آب و ہوا میں جم جاتے ہیں۔
ماہر امراض قلب کے مطابق چربی یا گھی کا استعمال جب تک کم مقدار میں کیا جاتا رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ورزش اور پیدل چلنے کی روٹین اپنائی جائے تو یہ اتنا نقصان دہ نہیں ہے۔
تاہم اگر کسی فرد کو پہلے سے بلڈ پریشر، شوگر یا دل کی بیماری لاحق ہے تو ان کیلئے چربی یا چکنائی کا استعمال خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ایک صحت مند شخص اگر لگاتار چربی کا استعمال کرتا ہے اور اس کی روز مرہ روٹین میں زیادہ نقل حمل اور ورزش شامل نہیں تو یہ چکنائی وزن بڑھنے اور خون کی نالیوں میں جم کر دل کی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔
یومیہ چربی کااستعمال بالآخر نالیوں میں چکنائی کے اضافے کا سبب بنتا ہے۔
خون کی نالیوں میں چکنائی کی مقدار جب 50 فیصد سے تجاوز کرنے لگتی ہے تو انجائنا ہوجاتا ہے اور شریانیں مکمل بلاک ہونے کی صورت میں دل کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ خون میں گردش کرنے والی چکنائی دل کی دھڑکن کو نا ہموار کرتی ہے اور یہ چکنائی نہ صرف دل کی نالیوں بلکہ یہ گردن اور دماغ کی نالیوں میں بھی جمع ہونے لگتی ہے۔ پھر ٹانگ اور گردوں کی نالیوں میں بھی رکاوٹ آنے لگتی ہے۔
اس سے فالج، اندھا پن، بلڈ پریشر، گردے فیل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ چکنائی اور کاربو ہائیڈریٹس کا بھی آپس میں تعلق ہے۔ اس لیے نشائستے اور کاربوہائیڈریٹس کا استعمال کم کرنا چاہتے کیونکہ یہ بھی بعد میں چکنائی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
خوراک میں شامل اجزا کا متناسب ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر ہر چیز کو ایک مناسب حد تک کھایا جائے اور روز مرہ معمولات میں ورزش کو شامل کیا جائے تو ان کے بُرے اثرات کو بہت حد تک کم اور ختم کیا جا سکتا ہے۔