برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو سکینڈلز سے متعلق آج بدھ کو پارلیمنٹ میں سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا اور سینیئر قانون ساز ان سے پوچھ گچھ کریں گے۔
یادرہے برطانوی حکومت کے اہم ترین وزرا چانسلر رشی سونک اور سیکریٹری صحت ساجد جاوید نے حکومت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔
برطانوی وزیراعظم کی حکمران کنزرویٹو پارٹی میں قانون سازوں کی بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ ’جانسن کے لیے کھیل ختم ہو چکا ہے۔‘ تاہم انہوں نے نیا وزیر خزانہ مقرر کر کے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا عزم ظاہر کیا۔
کنزرویٹو پارٹی کے ایک قانون ساز نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مجھے شک ہے کہ ہمیں انہیں ڈاؤننگ سٹریٹ سے گھسیٹ کر لے جانا پڑے گا، اگر ہمیں یہ اسی طرح سے کرنا پڑا تو ہم کریں گے۔
بورس جانسن کی حکومت پچھلے کچھ مہینوں سے سکینڈلز کی زد میں ہے۔ وزیراعظم کو کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن قوانین کو توڑنے پر جرمانہ کیا گیا تھا۔
یہی نہیں بلکہ ان کے ڈاؤننگ سٹریٹ آفس کے عہدیداروں کے رویے کے خلاف ایک قابل مذمت رپورٹ شائع ہوئی تھی جنہوں نے لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی کی تھی۔
تازہ ترین سکینڈل میں بورس جانسن نے ایم پی کرس پنچر کو حکومتی عہدے پر تعینات کیا جن کے خلاف جنسی بدسلوکی کی شکایات تھیں۔
اس سکینڈل کے سامنے آنے کے بعد رشی سونک نے وزیر خزانہ اور ساجد جاوید نے سیکریٹری صحت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
ریسرچ اور ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والی برطانوی فرم یو گوو کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 69 فیصد برطانوی شہریوں کا خیال ہے کہ بورس جانسن کو وزیراعظم کے عہدے سے سبکدوش ہو جانا چاہیے تاہم وزارتی ٹیم کے دیگر ارکان نے ان کی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔