مینگو فیسٹیول کے تیسرے دن کا آغاز مینگو ڈش بنانے کے مقابلے سے ہوا، مینگو کی برانڈنگ اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار میں 30 سے زائد تنظیموں اور افراد کی جانب سے آم پر مبنی 200 سے زائد پکوان پیش کیے گئے، ایک ماہر علی اقبال نے ڈیجیٹل مینگو مارکیٹنگ، مواقع اور چیلنجز پر پریزنٹیشن دی۔ انہوں نے ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں سیلز، پروکیورمنٹ، انوینٹری مینجمنٹ اور آپریشنل مسائل کے بارے میں بتایا ۔
ترقی پسند کاشتکار رابعہ سلطان نے مختلف مواقع پر کاشتکار برادری کے لیے تربیتی پروگرام منعقد کرنے میں یونیورسٹی اور اس کے اہم کردار کو سراہا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آن لائن فورمز اور ماہانہ زوم سیشن کے ذریعے کسانوں کے ساتھ روابط کو بہتر بنایا جائے، کوالٹی اشورینس فارم کی سطح سے شروع ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا فصل کے بعد کے انتظام کے لیے تربیت کی ضرورت ہے اچھے تربیت یافتہ عملے کے ساتھ چھوٹے پیمانے پر آن فارم پلپنگ پلانٹس اور باہمی تعاون کی بھی ضرورت ہے۔
کاشتکار رابعہ سلطان نے کہا کہ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی تربیت کسانوں میں اس جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے خوف کو دور کرے گی اسی طرح یہ کسانوں کو ان کی پیداوار کے مقابلے میں شاندار واپسی بھی فراہم کرے گا۔ زاہد گردیزی نے پوسٹ ہارویسٹ ٹیکنالوجیز میں اختراعی طریقوں کو اپنانے پر زور دیا۔ MNSUAM سے ڈاکٹر عائشہ حکیم نے کیمرے کی شناخت کی بنیاد پر آم کے AI پر مبنی معیار کی جانچ کے بارے میں بتایا۔
تقریب کے میزبان وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف علی نے کہا کہ آم کی صنعت بین الاقوامی برآمدی منڈیوں میں آگے بڑھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے چیلنجز ہیں لیکن سخت محنت اور سیکھنے کے رویے کی بدولت ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، کاشتکاروں کو آم کی سپلائی چین مینجمنٹ کا حصہ بننا ہوگا، نوجوان زراعت کے کاروبار کا مستقبل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایم این ایس یونیورسٹی آف ایگریکلچر ملتان کاشتکار برادری کی فلاح و بہبود کے لیے پرعزم ہے۔
اختتامی تقریب پر وائس چانسلر نے فیسٹیول میں شرکت کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو سراہا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس خطے میں آم کی اہمیت کو اجاگر کرنا یونیورسٹی کی اولین ترجیح ہے۔ مینگو فیسٹیول اب شہر کا برانڈ بن چکا ہے۔ وائس چانسلر نے کہا کہ یونیورسٹی کا وژن آئندہ برسوں میں آم کی برآمدات کو بڑھانا ہے۔انہوں نے کہا کہ کاشتکار برادری یونیورسٹی کی اولین ترجیح ہے۔