ویب ڈیسک: کیپٹل ہل پر حملے کے تین سال مکمل، بائیڈن کی دوسری دفعہ صدارت کے حامی امریکیوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔
وائس آف امریکا نے کہا ہے کہ پیو ریسرچ سنٹر کے مطابق، کیپیٹل ہل پر حملے کے بعد کے دنوں میں، 52 فیصد امریکی بالغوں کا کہناتھا کہ ٹرمپ پر 6 جنوری کے واقعات کی بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ 2022 کے اوائل تک یہ تعداد گھٹ کر 43 فیصد ہو گئی تھی۔
ان امریکیوں کی تعداد جن کا مؤقف تھا کہ 6 جنوری کی ذمہ داری ٹرمپ پر نہیں ہے 2021 میں 24 فی صد تھی جو 2022 میں بڑھ کر 32 فی صد ہو گئی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ میں یونیورسٹی آف میری لینڈ کے اس ہفتے جاری ہونے والے سروے کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ 10 میں سے 7 ریپبلکن کہتے ہیں کہ اس حملے کے بارے میں بہت زیادہ کہا جا رہا ہے۔
صرف 18 فی صد کہتے ہیں کہ کیپیٹل ہل میں داخل ہونے والے مظاہرین بہت زیادہ پرتشدد تھے، جب کہ 2021 میں یہ تعداد 26 فی صد کے لگ بھگ تھی۔
دوسری جانب 77 فی صد ڈیموکریٹس کی اور 54 فی صد ایسے لوگوں کی رائے میں جن کا کسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، مظاہرین بہت زیادہ پرتشدد تھے۔ اس رائے میں 2021 کے مقابلے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس اور این او آرسی سینٹر فار پبلک افیئرز ریسرچ کے دسمبر میں ہونے والے ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ 87 فی صد ڈیموکریٹس اور 54 فی صد غیر جانبدار لوگوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار کی دوسری مدت امریکی جمہوریت پر منفی اثر ڈالے گی جب کہ 82 فی صد ریپلیکنز کا کہنا ہے کہ بائیڈن کی ایک اور صدارتی مدت سے جمہوریت کمزور پڑ جائے گی۔ 56 فی صد غیرجانبدار لوگوں کی بھی یہی رائے ہے۔
2022 کے وسط مدتی انتخابات سے پہلے صدر بائیڈن نے کئی مرتبہ ٹرمپ کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ 2023 میں کیپیٹل ہل پر حملے کی دوسری برسی کے موقع پر اس عمارت کی حفاظت کرنے پر 14 افراد کو صدارتی تمغے دیے گئے اور پرتشدد ہجوم کی مذمت کی گئی۔
بائیڈن کی دوسری انتخابی مہم کی مینیجر جولی شاویز روڈریگز نے حال ہی میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ چھ جنوری کو جو کچھ ہوا وہ ہجوم نے ڈونلڈ ٹرمپ کے کہنے پر کیا۔
چھ جنوری 2021 میں ٹرمپ کے حامیوں نے اس وقت کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا تھا جب کانگریس کے اجلاس میں قانون ساز جوبائیڈن کی جیت کی توثیق کے عمل سے گزر رہے تھے۔
یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ قانون سازوں اور اس وقت کے نائب صدر مائیک پینس کو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا تھا اور صدارتی توثیق کا عمل کئی گھنٹوں کے لیے تعطل میں پڑ گیا تھا اور امن و امان برقرار رکھنے والے اداروں کو ہجوم کو عمارت سے باہر نکالنے کے لیے کارروائی کرنی پڑی تھی۔
اس بلوے کے نتیجے میں 9 افراد نے اپنی جانیں گنوائیں اور 700 سے زیادہ لوگوں کو عدالتوں میں پیش ہونا پڑا جن میں سے 450 کے لگ بھگ کو جیل کی سزائیں سنائی گئیں۔