ایک نیوز : سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قراردینے کے صدارتی ریفرنس پر سماعت اگلے ہفتے سے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں لارجر بنچ کرے گا۔
رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دینے سے متعلق صدارتی ریفرنس سماعت کیلئے مقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دینے کا ریفرنس آئندہ ہفتے سماعت کیلئے مقرر ہونے کا امکان ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت لارجر بنچ کرے گا جبکہ صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں ہوگی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے قتل پر صدارتی ریفرنس پرعمل ہونا چاہئیے اورفل کورٹ کویہ فیصلہ کرنا چاہئیے،پوری دنیا کو علم ہے کہ شہیدبھٹو کا قتل ایک عدالتی قتل تھا۔
— Government of Pakistan (@GovtofPakistan) April 5, 2023
وزیر اعظم شہباز شریف کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال pic.twitter.com/cSCLGwUCeH
صدارتی ریفرنس کب کس نے دائر کیا؟
یادرہے پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے وفاقی کابینہ کی منظور ی کے بعد 2 اپریل 2011 کو سپریم کورٹ میں ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قراردینے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔اٹھارہ صفحات پر مشتمل یہ ریفرنس ہفتے کے روز اس وقت کے سیکریڑی قانون مسعود چشتی نے عدالت میں جمع کروایا۔
ریفرنس میں سابق صدر نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت پر ختم ہونے والے عدالتی مقدمات کا ازسرِنو جائزہ لیں اور اس پر اپنی رائے دیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے احمد رضا قصور ی کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کےمقدمے میں اس وقت کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف موت کی سزا سنائی تھی اور سپریم کورٹ نے مارچ 1979 کے اپنے منقسم فیصلے میں بھٹو کے خلاف موت کی سزا برقرار رکھی تھی۔
موت کی سزا برقرار رکھنے والے سپریم کورٹ کے بینچ میں شامل ایک سابق جج جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی بعد میں سرِ عام یہ تسلیم کیا تھا کہ بھٹو کے خلاف منقسم عدالتی فیصلہ اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دباؤ میں دیا گیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو پھانسی پانے والے منتخب وزیراعظم
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی تاریخ میں واحد منتخب وزیر اعظم تھے جن کو عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی اور پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اس کو عدالتی قتل قرار دیا۔
عالمی رہنماؤں کی اپیلوں اور بین الاقوامی ماہرین قانون کی طرف سے اس فیصلے کی قانونی صحت پر تحفظات کے باجود اس وقت کی فوجی حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کو 4اپریل 1979کو پھانسی دے دی تھی۔
چیف جسٹس افتخارچودھری کی سربراہی میں صدارتی ریفرنس کی سماعت
28 جون 2011 کو اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی بنچ نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے مقدمے میں پھانسی سے متعلق کیس کا ازسر نو جائزہ لینے کے لیے اسے دوبارہ ٹرائل کورٹ میں بھیجنا ہوگا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ عدالت میں نئے شواہد پیش کیے جائیں۔
کیس ری اوپن کرنیکا اختیار کس کا؟
سماعت کے دوران سرکاری وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ متعدد ملکوں میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ قتل کے مقدمات کا فیصلہ ہونے کے بعد بھی اُنہیں دوبارہ سُنا گیا اور پھر فیصلے دیے گئے۔
ینچ میں شامل میاں جسٹس شاکراللہ جان نے کہا کہ جن مقدمات کا حوالہ دیا گیا ہے وہاں کی عدالتوں میں ان مقدمات سے متعلق کوئی نئے شواہد بھی پیش کیے گئے ہوں گے اور ان ملکوں کے آئین میں ایسی گُنجائش موجود ہوگی۔ انہوں نے سرکاری وکیل سے متعلقہ ممالک کی کیسز کی نظیرات طلب کی گئیں تو وہ کوئی جواب نہیں دے سکے
بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں صدر کے پاس معافی کا اختیار تو ہے لیکن کیس ری اوپن کرنے کا نہیں ہے۔
سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ جج جانبدار تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کو صفائی کا موقع بھی نہیں دیا گیا جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جس کا اظہار سابق وزیر اعظم کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت کرنے والی بینچ میں شامل جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔
شواہد ہوئے بھی تو جانچ پڑتال ٹرائل کورٹ کرے گی ، سپریم کورٹ
عدالت نے سرکاری وکیل سے کہا کہ اگر اُن کے پاس ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کے شواہد موجود ہیں تو وہ عدالت میں پیش کریں تاہم ان شواہد کی جانچ پڑتال بھی ٹرائل کورٹ ہی کرے گی۔
جیل ٹرائل کا ریکارڈ کہاں گیا؟
عدالت میں پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پانچ شکایات درج تھیں جن میں سے تین کا ریکارڈ دستیاب ہے جبکہ جیل میں ہونے والے ٹرائل کا ریکارڈ بھی موجود نہیں ہے۔