ایک نیوز: میجر شبیر شریف 28 اپریل 1943 کو گجرات کے علاقے کنجاہ میں پیدا ہوئے۔ میجر شبیر شریف کا خاندان پاکستان آرمی سے وابستہ تھا،فوجی گھرانہ ہونے کی وجہ سے میجر شبیر شریف کی تربیت عسکری ماحول میں ہوئی یہی وجہ تھی کہ آپ نڈر اور بہادر انسان تھے۔
میجر شبیر شریف نے اپریل 1964 میں کمیشن حاصل کیا اور انہیں پاسنگ آؤٹ پریڈ میں سب سے بڑے فوجی تربیتی اعزاز ''اعزازی شمشیر'' سے نوازا گیا۔ میجر شبیر شریف کو پاس آؤٹ ہونے کے بعد فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی چھٹی بٹالین میں تعینات کیا گیا۔
جنگ ستمبر 1965 میں زخمی ہونے کے باوجود میجر شبیر شریف نے چونڈہ کے مقام پر کمپنی کی کمانڈ سنبھالی اور بہترین دفاعی حکمت عملی اپناتے ہوئے دشمن پر کاری ضربیں لگائیں۔ شبیر شریف پاک فوج میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات کا سفر طے کرتے ہوئے اپریل 1970ء میں میجر کے رینک پر تعینات ہوگئے۔ 3 دسمبر 1971ء میں جنگ کی شروعات ہونے پر میجر شبیر شریف نے اپنے کمانڈر سے رابطہ کیا اور دشمن کے مورچوں پر جانے کی اجازت چاہی۔
جہاں ہر طرف بارودی سرنگوں کے جال، ٹینک اور توپیں نصب تھیں مگر مشکل ترین کام سرانجام دینا اور خطروں سے کھیلنا میجر شبیر شریف کے مزاج کا خاصہ تھا۔ میجر شبیر شریف نے ایسے محاذ کا انتخاب کیا، جہاں گھمسان کا رن پڑنے والا تھا لیکن میجر شبیر شریف نے اپنے ساتھیوں کو اس طرح تیار کیا کہ تمام سپاہی جذبہ شہادت سے سرشار اللّٰہ پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی بھی امتحان سے گزرنے اور ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار تھے۔
میجر شبیر شریف کے دستے کا پہلا ہدف بھارتی جھنگر پوسٹ تھی جس کو میجر شبیر شریف اور ان کے ساتھیوں نے کاری ضربیں لگاتے ہوئے قبضے میں لے لیا۔ میجر شبیر شریف اور ان کے شیردل جوان بارودی سرنگوں سے گزر کر اندھادھند فائرنگ کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے ہدف تک پہنچ گئے۔ یہ صورتحال دشمن کے لئے ناقابلِ یقین اور غیر متوقع تھی مگر دشمن کے پاس جان بچانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا لہذا وہ اپنی جانیں بچانے کیلئے میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نکلے۔
میجر شبیر شریف اور ان کے ساتھیوں نے شدید سردی میں یخ بستہ پانی سے گزرتے ہوئے بھارتی شہر فاضلکا کے قریب نہر سبونہ عبور کرنا تھی جسے چاروں اطراف سے دشمن نے مضبوط کیا ہوا تھا۔ میجر شبیر شریف اور ان کے ساتھی کمال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہر میں کود گئے اور دشمن کی مسلسل فائرنگ کے باوجود بھی پیش قدمی نہ روکی اور بالآخر اس مشکل ترین مرحلے سے نکل کر نہر سبونہ عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
میجر شبیر شریف کی کامیاب کمانڈ، دلیری اور بہترین حکمت عملی نے دشمن کو بھاری نقصان سے دوچار کرتے ہوئے 43 بھارتی فوجیوں کو ہلاک، 38 سپاہیوں کی افسران سمیت گرفتاری کے علاوہ ٹینکوں کو بھی تباہ کر دیا۔ سبونہ کے محاذ پر دشمن کی جانب سے شدید حملوں کے باوجود میجر شبیر شریف نے ایک لمحہ کے لئے بھی خوف کو قریب نہ آنے دیا اور مسلسل ساتھیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔
سبونہ کے محاذ پر چار گھنٹوں کی مسلسل گولہ باری کے بعد چاروں جانب سے بھارتی ٹینکوں نے پاک فوج کی جانب پیش قدمی شروع کردی، اس معرکے کے دوران میجر شبیر شریف نے دشمن کے کئی ٹینک تباہ کردیے۔ سبونہ کے معرکے کے دوران 6 دسمبر 1971 کو میجر شبیر شریف دلیری اور بہادری سے دشمن کا مقابلہ کرنے میں مصروف تھے کہ دشمن کے ٹینک کے حملے کے نتیجے میں آپ شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔
آپ کی اس بے مثال جرات اور بہادری کے صلے میں آپ کو حکومت پاکستان کی جانب سے آپ کو نشان حیدر سے نوازا گیا۔ میجر شبیر شریف شہید کہتے تھے کہ''انسان کی زندگی تو باعزت ہونی چاہیے لیکن موت بھی باوقار ہونی چاہیے''۔