قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس، چیئرمین کی مدت ملازت میں توسیع کی مخالفت

Aug 06, 2024 | 19:00 PM

ویب ڈیسک:قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں صحافی کی تعریف پر بحث ہوئی جہاں صحافتی تنظیموں کے نمائندوں نے نئے ترمیمی بل میں کمیٹی چیئرمین کی3سالہ مدت ملازمت میں ایک سال توسیع کی شق ختم کرنے کی سفارش کی۔ 

تفصیلات کےمطابق کمیٹی چیئرمین اور سینیٹر علی ظفر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس ہوا جس میں صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کی حفاظت کا ترمیمی بل 2022 زیر غور آیا۔

اجلاس میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے نمائندوں نے کہا کہ صحافتی تنظیموں اور سٹیک ہولڈرز بل کے ٹیکسٹ سے لاعلم ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ جنسی رحجانات کا صحافتی معیار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

کمیٹی نے صحافی کی تعریف سے متعلق جنسی رحجانات کی شق نکالنے کی سفارش کر دی۔

اس موقع پر پی ایف یو جے کے نمائندوں نے صحافیوں کی تعریف پر مختلف قوانین پہلے سے موجود ہونے کا حوالہ دیا اور صحافی کی تعریف پر خدشات کا اظہار کیا۔

سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ اس بل میں تکنیکی سٹاف کو بھی صحافیوں میں شامل کیا گیا ہے،قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے صحافی کی تعریف میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔

کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ صحافیوں کے حقوق کیلئے کمیشن پرانے قانون کے مطابق بھی موجود ہے اور نئے ترمیمی بل میں کمیشن کے چیئرپرسن کی کوالیفیکیشن متعین کرنے کا کہا گیا ہے۔

اس موقع پر سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ترمیمی بل میں کمیشن کے چیئرمین کی مدت ملازمت بھی 3سال کی گئی ہے جس میں ایک سال کی توسیع دی جا سکے گی۔

کمیٹی نے کمیشن کے چیئرپرسن کے معیارات میں تبدیلی کی سفارش کی جہاں چیئرمین کمیٹی بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کمیشن کے چیئرمین کی تعیناتی وفاقی کابینہ نے کرنی ہے۔

سینیٹر علی ظفر نے سوال کیا کہ کیا ہر معاملہ وفاقی کابینہ کو بھیج کر کابینہ پر بوجھ نہیں بڑھایا جا رہا؟۔

اجلاس کے دوران صحافتی نمائندوں نے چیئرمین کی مدت ملازمت میں توسیع کی مخالفت کرتے ہوئے چیئرمین کی مدت میں توسیع کی شق ختم کرنے کی سفارش کر دی۔

سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ ایکسٹینشن نے ملک کو نقصان دیا ہے، اس پر پابندی لگا دیں۔

کمیٹی نے کمیشن کی جانب سے قید کی سزا دینے کی شق ختم کرنے کی سفارش کر دی البتہ مالی جرمانہ کرنے کی شق برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس دوران پنجاب اسمبلی کی جانب سے منظور شدہ ہتک عزت قانون پر بھی بحث ہوئی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہماری پنجاب اسمبلی نے ایک بل منظور کیا ہے، پنجاب میں بل منظور ہوا، ملک میں کہیں بات کرنے والے کو پنجاب میں طلب کیا جا سکے گا۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے سوال کیا کہ قانون صوبائی اسمبلی نے منظور کیا ہے، کیا ہم صوبائی اسمبلی کے معاملات میں مداخلت کر سکتے ہیں؟۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے سینیٹ کمیٹی کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے قانون پر بحث کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک صوبے کے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔

مزیدخبریں