کیا آپ دنیا کا8واں عجوبہ قراقرم ہائی وے کے بارے میں جانتے ہیں؟

1300کلو میٹرطول قراقرم ہائی وے دنیا کاآٹھواں عجوبہ
کیپشن: The 1300 km long Karakoram Highway is the eighth wonder of the world

ایک نیوز: کیا آپ دنیا کا 8واں عجوبہ1300 کلومیٹر طویل قراقرم ہائی وے کے بارے میں جانتے ہیں؟جو  کرہ زمین پر موجود حیران کن پہاڑی چٹانوں کے درمیان سے گزرتی ہے۔


کسی زمانے میں قراقرم ہائی وے شاہراہ ریشم کا حصہ ہوا کرتی تھی جس کی بنیاد یہاں کے مقامی باشندوں نے صدیوں پہلے رکھی تھی۔ تاہم 1978 میں، 24 ہزار پاکستانی اور چینی مزدوروں کی 20 سالہ محنت کے بعد، اس سڑک پر باقاعدہ طور پر گاڑیوں کی آمدورفت ممکن ہوئی جس کے باعث اس دور دراز علاقے کے لیے تجارت، سیاحت اور سفری آسانی کے دروازے کھل گئے۔
1300 کلومیٹر طویل سڑک پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے قریب حسن ابدال کے چھوٹے سے شہر سے شروع ہوتی ہے اور 4700 میٹر کی بلندی پر خنجراب کے مقام پر دنیا کی سب سے بلند پکی سڑک سے ہوتی ہوئی چین میں شنکیانگ تک جاتی ہے
تاہم میرے لیے اس سڑک کا سب سے دلچسپ حصہ وہ 194 کلومیٹر تھے جو وادی ہنزہ میں موجود ہیں۔ یہ علاقہ قراقرم کے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے جن کی وجہ سے ہی اس سڑک کا نام قراقرم ہائی وے رکھا گیا۔شاہراہ قراقرم پر سفر  کرتے ہوئے تیز ہوا گاڑی کی کھڑکی سے اندر آ رہی تھی۔ موسم گرما کے باوجود سات ہزار میٹر بلند چوٹیوں پر برف چمک رہی تھی اور گلیشیئر کے پگھلتے پانی آبشار کی شکل میں ہنرہ وادی سے گزرتے ہوئے دریا میں گر رہے تھے۔

یہ علاقہ غیر یقینی حد تک خوبصورت ہے جہاں سفر کے دوران آپ کو شفاف گلیشیئر، جھیلیں اور برف سے اٹی چوٹیاں ہر طرف نظر آتی ہیں۔ یہ سفر تو خوبصورت ہے ہی لیکن اس جگہ پر ہائی وے کو خاص بنانے والی ایک اور اہم بات ہنزہ کے لوگ اور اس وادی کی روایات ہیں۔

گلگت بلتستان میں شنکیانگ اور واخان کاریڈور کے درمیان موجود ہنزہ 20ویں صدی تک باقی دنیا سے کٹا ہوا تھا۔ یہاں کی مقامی آبادی بروشو اور واکھی لوگوں پر مشتمل ہے اور یہاں کی اپنی زبان، موسیقی اور ثقافت ہے جو پاکستان یا دنیا بھر میں کہیں اور نہیں ملیں گے۔
قراقرم ہائی وے نے دنیا کے لیے اس وادی تک کا سفر آسان تو کر دیا ہے لیکن ماحولیاتی اعتبار سے ایک منفی اثر بھی مرتب ہوا اور مقامی لوگوں کی اکثریت کو اپنی روایتی زندگی ترک کرنا پڑی۔ اب یہاں طویل عرصے تک ’جینانی‘ جیسے جشن منانے والے لوگ کم رہ گئے ہیں جو بہار کی آمد کا جشن ہے۔
تاہم اب کچھ مقامی لوگ ہنزہ کی مخصوص روایات کو زندہ رکھنے کے لیے کافی محنت کر رہے ہیں۔