ایک نیوز: سپریم کورٹ نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جسے چیف جسٹس پاکستان نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل سنانے کا اعلان کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر 53ویں سماعت پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بنچ کا حصہ ہیں۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کیس میں ریمارکس دیےکہ ریفرنس واپسی کی وجوہات سے اندازہ ہوتا ہے قانون کا جھکاؤکس جانب ہے۔چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ محفوظ شدہ فیصلہ جلد سنایا جائے گا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ تحریری گزارشات عدالت کو جمع کروا دی ہیں۔چیف جسٹس نےخواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ نے نیب کی رپورٹ پڑھی ہے؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے مئی تک واپس ہونے والے ریفرنسز کی وجوہات بتائی ہیں۔ریفرنس واپسی کی وجوہات سے اندازہ ہوتا ہے کہ قانون کا جھکاؤکس جانب ہے،مئی تک کن شخصیات کے ریفرنس واپس ہوئے سب ریکاڑد پر آ چکا ہے۔نیب قانون کے سیکشن 23 میں ایک ترمیم مئی اور دوسری جون میں آئی،مئی سے پہلے واپس ہونے والے ریفرنس آج تک نیب کے پاس ہی موجود ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیب کی جانب سے ان سوالات کے جواب کون دے گا؟۔ سپیشل پراسیکیوٹر ستار اعوان نے کہا کہ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کچھ دیر تک پہنچ جائیں گے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم کے بعد بہت سے زیر التواء مقدمات کو واپس کردیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ان ترامیم میں کوئی ایسی شق ہے جس کے تحت مقدس مقامات دوسرے فورمز کو بھجوائے جائیں ؟ان ترامیم کے بعد نیب کا بہت سا کام ختم ہوگیا ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ پہلے تحقیقات ہوں گئیں جن کے جائزہ کے بعد مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوائے جائیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسسار کیا کہ واپس ہونے والے فورمز کا مستقبل بارے کسی کو معلوم نہیں۔نہیں معلوم کہ یہ مقدمات دوسرے فورمز پر بھی جائیں گے ؟ کیا نیب کے پاس مقدمات دوسرے فورمز کو بھجنے کا کوئی اختیار ہے ؟
خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم کے بعد ان مقدمات کو ڈیل کرنے کا اختیار نیب کے پاس نہیں ہے۔مقدمات دوسرے اداروں کو بھجوانے کا بھی کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیب کے دفتر میں قتل ہوگا تومعاملہ متعلقہ فورم پر جائے گا۔مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوانے کیلئے قانون کی ضرورت نہیں،جو مقدمات بن چکے وہ کسی فورم پر تو جائیں گے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ دوسرے فورمز کو مقدمات بھجوانے کا اختیار نہیں مل رہا اس بارے ضرور پوچھیں گے۔،اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو نیب قانون سے استثنیٰ نہیں۔ آرٹیکل 209 کے تحت جج برطرف کیا جاسکتا ہے، ریکوری کا امکان نہیں۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریاستی اثاثوں میں بدعنوانی ہو، اسمگلنگ یا سرمائے کی غیر قانونی منتقلی، اس پر قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔ جرائم کی ٹھوس وضاحت نہ کرنا مایوس کن امر ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ عوام کو خوشحال اور محفوظ بنائے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے مقدمے کے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کر رکھے ہیں،سپریم کورٹ نیب ترامیم کیس میں اب تک 52سماعتیں کرچکی ہے جس میں سے چئیرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث 26 سماعتوں پر دلائل دے چکے ہیں۔وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے 23 سماعتوں پر دلائل دئیے ہیں،حکومتی وکیل مخدوم علی خان اور وکیل چئیرمین پی ٹی آئی خواجہ حارث کے جواب الجواب بھی مکمل ہو چکے ہیں۔نیب نے گزشتہ سماعت پر رواں سال نیب سے واپس ہونے والے مقدمات کی فہرست بھی عدالت میں جمع کروا دی ہے،چیئرمین پی ٹی آئی نے پی ڈی ایم حکومت کی نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔