ایک نیوز: اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے صحافی مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کے کیس میں ریمارکس دیئے کہ 5 سال سے اپیلیں زیرالتوا ہیں، ہمیں ایسے بیٹھتے بھی شرمندگی ہوتی ہے۔لوگوں کا لاپتہ ہونا ملک کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔جسٹس گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ لوگ لاپتہ ہو جاتے ہیں لیکن ریاست کچھ بھی نہیں کرتی۔پچھلے وزیراعظم پیش ہوئے لیکن انہوں نے بھی گمراہ کیا۔اگلے وزیراعظم آئیں گے تو انکی ترجیحات کچھ اور ہونگی۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب پرمشتمل بنچ نے صحافی مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے دائر درخواستوں اور لاپتہ افراد کی بازیابی درخواستوں پر فیصلوں کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔
دورن سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ شہریوں کا لاپتہ ہونا انتہائی غیرمعمولی نوعیت کا معاملہ ہے۔لاپتہ افراد کیسز دنیا میں پاکستان کے نام پر سیاہ دھبہ لگا رہے ہیں۔عدالت بار بار ڈائریکشنز جاری کرتی ہے لیکن کوئی عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ریاست طاقتور ہے لیکن لاپتہ افراد کے کیسز میں کہتی ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔یہاں لوگ لاپتہ ہوتے ہیں کیا آپ اس ملک کے ترقی کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید ریمارکس دیئے کہ کوئی ملک آپ کو ڈالر نہیں دے گا اگر آپ کے شہری محفوظ نہیں ہوں گے۔عدالتوں کو شہریوں کا لاپتہ کرنے کا عمل کسی طور برداشت نہیں کرنا چاہئے۔اٹارنی جنرل وزیراعظم سے ملاقات کر کے پیشرفت سے آگاہ کریں۔عدالت نے کیس کی سماعت دو ہفتے کیلئے ملتوی کر دی۔