ایک نیوز : چلی ہے رسم، کوئی گنگنا کر نہ چلے، میانوالی میں فنکاروں کو پولیس کی جانب سے ہراساں کرنے کے خلاف عوامی احتجاج کیا گیا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق اپریل کے اواخر میں میانوالی پولیس کی مدعیت میں دو مقامی گلوکاروں پر ان کے گانوں کو متنازع قرار دے کر یکے بعد دیگرے دو ایف آئی آرز درج کی گئی تھی۔ پولیس کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ ان گانوں میں شراب اور دیگر منشیات کا ذکر ہے اس لیے یہ گانے اور ان کی شاعری معاشرے میں منشیات کو فروغ دے رہے ہیں۔
عیدالفطر کے دن ان میں سے ایک فوک گلوکار ریاض ماہی کو گرفتار کر لیا گیا تھا جن کی بعد ازاں انکی ضمانت ہو گئی، جب کہ دوسری ایف آئی آر میں نامزد گلوکار نعمت نیازی کی گرفتاری تاحال عمل میں نہیں آئی ہے۔
عوامی احتجاج کو منظم کرنے والے ریحان نیازی کا کہنا ہے کہ سوچ خطرناک ہے غالب ،حافظ شیرازی کی شاعری میں بھی شراب کا ذکر ہے کیاانہیں بھی ممنوع قرار دیدیا جائے ؟سماجی شخصیت رمضان خان کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ میانوالی میں طالبانی سوچ سرایت کرتی جا رہی ہے اور دکھ تو یہ ہے کہ ریاست بھی ایسی سوچ کی آلہ کار بن گئی ہے۔ بجائے اس کے کہ منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاتا، الٹا فن کاروں کو دھر لیا گیا ہے۔
https://www.pnntv.pk/digital_images/large/2023-05-05/news-1683274722-9389.jpeg
ریحان نیازی نے مؤقف اپنایا کہ اس طرح کی شاعری عطا اللہ عیسیٰ خیلوی، شفا اللہ روکھڑی سمیت میانوالی کے نامور فوک گلوکاروں نے گائی ہے لیکن انہیں آج تک پولیس کی طرف سے اس نوعیت کی ہراسانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اب تو سوشل میڈیا پر دس سال پرانے گانوں پر بھی کارروائی کا مطالبہ کیا جانے لگا ہے۔
ریاض ماہی اور نعمت نیازی پر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 292 اور 294 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ان گلوکاروں کے وکیل ملک سمیع اللہ کے مطابق "سیکشن 292 اور 294 کی سزا زیادہ سے زیادہ تین مہینے قید یا جرمانہ ہے اور یہ دونوں قابل ضمانت جرم ہیں۔ سیکشن 292 فحش مواد کی تشہیر سے متعلق ہے جبکہ سیکشن 294 عوامی مقامات پر فحش موسیقی سے متعلق ہے۔"
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میانوالی کی پچھلے سو سال کی تاریخ میں اس طرح کی ایف آئی آر کی کوئی مثال نہیں ملتی۔