عدالت کے تحمل کو اس کی کمزوری نہ سمجھاجائے،چیف جسٹس عمرعطاءبندیال

May 05, 2023 | 13:05 PM

JAWAD MALIK

ایک نیوز:سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانےکے کیس کی سماعت جاری ہے۔چیف جسٹس پاکستان عمرعطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کولے کر بیٹھی نہیں رہے گی، آئین کے مطابق اپنے فیصلے پر عمل کرانے کےلیے آئین استعمال کرسکتے ہیں،حکومت عدالتی احکامات پر عملدرآمد کی پابندہے،قانون پر عملدرآمد کیلئے قربانیوں سے دریغ نہیں کریں گے۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل پاکستان منصورعثمان اعوان نے بتایا کہ حکومت نے بھی اپنا جواب جمع کرا دیا ہے، فاروق نائیک صاحب مذاکرات سے متعلق مزید بتائیں گے۔

فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک متفرق درخواست بھی جمع کرائی ہے، چیئرمین سینیٹ کے آفس میں مذاکرات ہوئے، چیئرمین سینیٹ نے سہولت کار کا کردار ادا کیا، دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے 5 ادوار ہوئے، حکومتی اتحادی جماعتوں نے موجودہ ملکی معاشی صورتحال سے تحریک انصاف کو آگاہ کیا، آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات سے متعلق بھی پی ٹی آئی کمیٹی کو بتایا گیا، ملک کی موجودہ خراب معاشی صورتحال کو پی ٹی آئی نے بھی تسلیم کیا، حکومتی اتحادی جماعتوں نے اگست میں قومی اسمبلی توڑنے پر رضامندی ظاہر کی،مذاکرات کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے اتحادی حکومت کا جواب عدالت میں پڑھ کر سنایا،فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ قرضوں میں78 فیصد، سرکولر ڈیٹ میں 125 فیصد اضافہ ہو چکا ہے،سیلاب کے باعث31 ارب ڈالر کا نقصان ہوا،اسمبلی تحلیل سے پہلے بجٹ، آئی ایم ایف معاہدہ، ٹریڈ پالیسی کی منظوری لازمی ہے،لیول پلیئنگ فیلڈ اور ایک دن انتخابات پر اتفاق ہوا،اسمبلی تحلیل کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہو سکا،ملکی مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے کو حکومت تیار ہے،ہر حال میں اسی سال ایک دن الیکشن ہونے چاہئیں،سندھ اور بلوچستان اسمبلی قبل از وقت تحلیل پر آمادہ نہیں،ہر فریق کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑتی ہے،مذاکرات میں کامیابی چند روز میں نہیں ہو سکتی،مذاکرات کیلئے مزید وقت درکار ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معاہدے پر زور دیا گیا،عدالت میں ابھی مسئلہ آئینی ہے،سیاسی نہیں، سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے، یہ بتائیں کہ آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟

فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ بجٹ کے لیے آئی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے،اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکےگا، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑی نہ گئی ہوتیں تو بحران نہ آتا، بحران کی وجہ سے عدالت کا وقت بھی ضائع ہو رہا ہے،اسمبلیاں توڑنے سے عدالت پر بوجھ بھی پڑ رہا ہے، افہام وتفہیم سے معاملہ طے ہوجائے تو بحرانوں سے نجات مل جائےگی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئی ایم ایف قرضہ سرکاری فنڈز کے ذخائر میں استعمال ہوگا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ یہ جواب وزیر خزانہ دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نےاستفسار کیا کہ اسمبلی توڑنے پربھی بجٹ کے لیے آئین 4 ماہ کا وقت دیتا ہے، اخبار میں پڑھا کہ آئی ایم ایف کے پیکیج کے بعد دوست ممالک تعاون کریں گے، تحریک انصاف نے بجٹ کی اہمیت کو تسلیم کیا یا رد کیا ہے؟ آئین میں انتخابات کے لیے 90 دن کی حد سے کوئی انکارنہیں کرسکتا، یہ عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پرعمل داری کا معاملہ ہے، 90 دن میں انتخابات کرانے پرعدالت فیصلہ دے چکی ہے، کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا موقف سنا، مذاکرات ناکام ہوئے توعدالت 14 مئی کے فیصلے کو لےکر بیٹھی نہیں رہےگی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے مطابق اپنے فیصلے پرعمل کرانے کے لیے آئین استعمال کرسکتے ہیں،عدالت اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے، کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا اور اس سے نقصان ہوا،عدالت نے احترام میں کسی بات کا جواب نہیں دیا،غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے اس لئے ہم غصہ نہیں کرتے۔ہماری اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو کا جائزہ لیں،جو بات یہاں ہو رہی ہے اس کا لیول دیکھیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ عدالت کو 90 روز میں انتخابات والے معاملے کا جائزہ لینا ہوگا،انتخابات کیلئے نگران حکومتوں کا ہونا ضروری ہے،منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے الیکشن کوئی قبول نہیں کرے گا،یہ نظریہ ضرورت نہیں ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ 23 فروری کا معاملہ شروع ہوا تو آپ نے انگلیاں اٹھائیں،یہ سارے نکات اس وقت نہیں اٹھائے گئے ،آئینی کارروائی کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا۔

فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ ہمیں تو عدالت نے سناہی نہیں تھا۔اس پر چیف جسٹس نےریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے سماعت شروع کی تو حکومت نے بائیکاٹ کر دیا، حکومتی بائیکاٹ کے بعد ہم نے بھی کہہ دیا السلام وعلیکم۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ دوسرے راؤنڈ میں آپ نے بائیکاٹ کیا تھا،کبھی فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی،آپ 4 سے 3 کی بحث میں لگے رہے،جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنے کا نقطہ اٹھایا تھا،حکومت کی دلچسپی ہی نہیں تھی،آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں، کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کر رہا۔الیکشن کمیشن نے فنڈز اور سکیورٹی ملنے کا کہاتھا۔

فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ آئینی نکات پر دلائل نہیں ہو سکے تھے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ نظرثانی اپیل تک حکومت نے دائر نہیں کی،حکومت قانون کی بات نہیں سیاست کرنا چاہتی ہے،پہلے بھی کہا تھا کہ سیاست عدالتی کارروائی میں گھس چکی ہے،ہم سیاست کا جواب نہیں دیں گے،اللہ کے سامنے آئین کے دفاع کا حلف ہے،معاشی ، سیاسی ، معاشرتی، سکیورٹی بحرانوں کیساتھ آئینی بحران بھی ہے،کل بھی 8 لوگ شہید ہوئے،حکومت اور اپوزیشن کو سنجیدہ ہونا ہو گا،معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیں تو کیا قانون پر عملدرآمدنہ کرائیں،کیا عدالت عوامی مفاد سے آنکھیں چرا لے؟سپریم صرف اللہ کی ذات ہے،حکومت عدالتی احکامات پر عملدرآمد کی پابندہے،عدالت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے لیکن اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے،قانون پر عملدرآمد کیلئے قربانیوں سے دریغ نہیں کریں گے، قوم کے جوانوں نے قربانیاں دی ہیں تو ہم بھی قربانیاں دینے کیلئے تیار ہیں۔چھ فوجی جوان ہم نے گزشتہ روز کھو دیے، یہ ہمارا بہت بڑا نقصان ہے، معاشی حالات کے علاوہ ہمیں آج سکیورٹی کا اہم مسئلہ درپیش ہے، اگر سیاست دانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں تو آئین کہاں جائےگا۔

وکیل پی ٹی آئی علی ظفر کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے سنجیدگی سے مذاکرات میں حصہ لیا، ایک ہی دن انتخابات پر دونوں فریقین نے رضامندی ظاہرکی، حکومت مذاکرات کو معاملے کو طول دینے کے لیے استعمال نہ کرے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر سب کو عمل کرنا ہوگا، ہم نے مذاکرات میں کہا کہ قومی اسمبلی توڑ کر سپریم کورٹ کو آگاہ کیا جائے، حکومتی کمیٹی نے اسمبلی توڑنے سے اتفاق نہیں کیا، سپریم کورٹ جو حکم کرے گی ہم من وعن تسلیم کریں گے، ابھی تک حکومت نے پنجاب انتخابات کے لیے فنڈز نہیں دیے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل ہونا چاہیے۔

وزیر ریلوے و ہوا بازی خواجہ سعد رفیق:

مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ معذرت کے ساتھ، 2017 سے سپریم کورٹ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی، میرے ساتھ اس عدالت نے زیادتی کی، ہم اداروں سے محاذ آرائی نہیں چاہتے، مذاکرات میں حکومت نے لچک دکھائی مگر دوسرے فریق نے لچک نہیں دکھائی، آئین 90 دن میں انتخابات کا کہتا ہے مگر صاف شفاف انتخابات کا بھی کہتا ہے، پنجاب میں پہلے انتخابات سے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے، انتخابات کے معاملے پر ہی پہلے آدھا ملک گنوا چکے ہیں، ایک صوبے کا انتخاب ہونا تباہی لاسکتا ہے، 1988 کے سیلاب اور بینظیربھٹو کی شہادت کے وقت انتخابات آگے ہوئے تھے، حکومت انتخابات ایک ہی دن کرانے کے لیے تیار ہے، آرٹیکل 63 اے سے متعلق نظرثانی درخواست ابھی تک نہیں لگائی گئی۔

چیف جسٹس کانے ریمارکس دیئے کہ وہ درخواست ہم لگا رہے ہیں اٹارنی جنرل کو اس بارے میں بتادیا گیا ہے، ہماری اس کیس سے جان چھڑائیں گے تو ہم دوسرے کیس سنیں گے۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ کچھ مزید وقت مل جائے تو انشاءاللہ ضرور حل نکلےگا، اسمبلیاں توڑبھی دیں تو آئینی مدت کے تحت نومبر تک انتخابات ہوں گے، سیاسی معاملات میں عدالتوں کے الجھنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، ہماری سیاسی تاریخ زخموں سے چور چور ہے، پہلے ضیا پھر مشرف اور پچھلا نقاب پوش مارشل لاء گزر گیا تو یہ وقت بھی گزرجائےگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ابھی اپنا ہاتھ روک کر بیٹھی ہے، بڑی بڑی جنگوں میں بھی انتخابات ہوئے ہیں، ترکی میں زلزلے کے باوجود انتخابات ہوئے۔

سعد رفیق نےکہا کہ ہم ایک بھی دن مدت سےاوپر اسمبلی نہیں چلائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو باتیں ابھی عدالت کو بتائیں جارہی ہیں وہ لکھ کردی جا سکتی تھیں،انتخابات کے لیے فنڈز دے دیے جاتے باقی سکیورٹی کا بتادیا جاتا، بجٹ تو مئی میں بھی پیش کیےگئے،لازمی تو نہیں کہ بجٹ 30 جون کو ہی پیش کیا جائے، ہم دیکھتے رہے ہیں کہ جون سے پہلے بجٹ پیش ہوئے، آپ نے ہمیں ازخود نوٹس لینے کا کہا، ہم ازخود نوٹس لینا ترک کرچکے ہیں۔

سعد رفیق کا کہنا تھا کہ کہنا نہیں چاہتا تھا لیکن انتخابات کا فیصلہ ازخود نوٹس کے نتیجے میں ہی آیا، میں نے از خود نوٹس لینے کا نہیں کہا، میرا کہنا تھا کہ اگرکوئی بات ہم سے رہ گئی تو عدالت خود اس کو سمجھ سکتی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگرامتحان دینا پڑا تو مولا کی جومرضی ہوگی ہمارے ساتھ وہی ہوگا، ملک وقوم کی خاطر مسائل ختم کرنا چاہتے ہیں۔

سعد رفیق کا کہنا تھا کہ تین نکات پراتفاق ہوچکا ہے تو چوتھے نکتے پربھی اتفاق ہوجائے گا، مذاکرات میں موجودہ وقفہ کوئی بڑا وقفہ نہیں ہے۔

حکومت نے مذاکرات کے لیے سپریم کورٹ سے مزید وقت مانگ لیا اور عدالت سے انتخابات سے متعلق کوئی ڈائریکشن نہ دینے کی بھی استدعا کردی۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ میری درخواست ہے سپریم کورٹ کوئی ہدایت یا حکم نہ دے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیؑتے ہوئے کہا کہ ہمارا کسی قسم کی کوئی ہدایت کا ارادہ نہیں، ہم آپ لوگوں کو سننے کا اختیار تو رکھتے ہیں۔کیا نظرثانی اپیل دائر کرنے کی مدت ختم ہوچکی ہے؟ نظرثانی اپیل دائر کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔

وکیل شاہ خاور نے موقف دیا کہ الیکشن کمیشن نے نظرثانی اپیل دائر کر رکھی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل قابل سماعت ہے؟ الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ صرف فنڈز اور سیکیورٹی چاہیے۔

وکیل شاہ خاور نے کہا کہ شہباز شریف اور عمران خان مذاکرات میں شامل ہوں تو حل نکل سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم اور عمران خان مصروف لوگ ہیں ان کے نمائندے موجود ہیں، پارٹی لیڈران کے لیے سیاسی قائدین سے بات کریں۔

سعد رفیق نے کہا کہ مذاکراتی ٹیموں کو ہی بات کرنے دی جائے، عدالت کو مذاکرات میں نا لایا جائے، پہلے ہی کافی خرابی ہو چکی ہے۔

شاہ محمودقریشی:

پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے عدالت میں موقف دیا کہ حکومت نے کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ پرانا مؤقف دہرایا ہے، ہم نے اپنی پوری کوشش کی کہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکیں، حکومتی بینچز سے عدالتی حکم کی خلاف ورزی اور تکبر والی باتیں آ رہی ہیں۔ ہماری متفرق درخواست پر تمام کمیٹی ارکان کے دستخط ہیں جبکہ حکومتی جواب میں صرف اسحاق ڈار کے دستخط ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومتی درخواست صبح آئی ابھی نمبر بھی نہیں لگا لیکن اسے سن لیا، پی ٹی آئی اور حکومت کی آپس کی گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، عدالت کو صرف یہ دیکھنا ہے کسی تاریخ پر اتفاق ہوا یا نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا دو یا تین دن میں کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے؟

شاہ محمود قریشی نے جواب میں کہا کہ حکومت کہتی تھی بارہ جماعتیں ہیں مشاورت کے لیے وقت دیں، عمران خان سمیت سب نے تنقید کی کہ تین دن کا وقت کیوں دیا، تیسری نشست دن 11 بجے ہونی تھی لیکن رات 9 بجے ہوئی۔ نظرثانی دائر یہ نا کریں اور مرضی کی مہلت بھی لیں، فیصلہ نہ ہو تو آئین کیوں داؤ پر لگائیں؟ آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی اور آئی ایم ایف والا معاملہ نہ ہمیں معلوم ہے اور نہ سننا چاہتے ہیں، ملک کو آئینی بحرانوں کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، ہماری جماعت کا موقف دیکھیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آپ کا مؤقف پڑھ لیا ہے، دوسرے کیس میں کارروائی ہوسکتی ہے، اگر دلچسپی ہو تو دوبارہ مذاکرات پر آجائیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جتنی گنجائش کی توقع تھی اتنی نہیں ملی، حکومت لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہی، کیا ہمیں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں چبھ رہی تھیں؟ آئین کے تحت اپنی دو حکومتوں کی قربانی دی، مذاکرات کا ایک ماحول ہوتا ہے اور ہم مذاکرات کر رہے ہیں لیکن یہ پکڑ دھکڑ کر رہے ہیں، تنقید کے باوجود ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھے، وزیر قانون بڑا ایماندار آدمی ہے، وزیر قانون نے مذاکرات کے دوران کہا کہ فیصلہ چار تین کا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج کی عدالتی سماعت مکمل ہوگئی ہے، عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔

فاروق ایچ نائیک نے کہ اس پر نمٹا دیں کہ فریقین ایک تاریخ پر الیکشن کرانے پر متفق ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس نتیجے پر پہنچے کہ معاملہ سیاسی عمل پر چھوڑا جائے۔

فاروق نائیک نے کہا کہ یہ مسئلہ حل ہوجائے گا،جس پر چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف وعدے کرتے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے 27 اپریل کو ہونے والی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا، جس کے مطابق سیاسی جماعتوں کی جانب سے مذاکرات ان کی اپنی کوشش ہے، اس کے لیے سپریم کورٹ نے کسی بھی سیاسی جماعت کو کوئی ہدایت جاری نہیں کی۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا 14 مئی کو انتخابات کروانے کا حکم اپنی جگہ برقرار ہے۔ عدالت معاہدے کیلئے سیاسی جماعتوں کی رضا کارانہ کوشش کو سراہتی ہے۔

مزیدخبریں