اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ملک کو سب سے بڑا چیلنج کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے اور حکومت مشکل حالات میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پاس گئی۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے سخت شرائط رکھیں جن کی سیاسی قیمت بھی ہے۔ اس سے قبل جب میرے دور میں آئی ایم ایف کے پاس گئے تھے تو دنیا کو دہشت گردی کا سامنا تھا اور آئی ایم ایف سے فرینڈلی پروگرام ملا جس میں شرائط نہیں تھیں لیکن اب حکومت آئی ایم ایف کے پاس گئی تو شرائط لگا دی گئیں۔
شوکت ترین نے کہا کہ کورونا سے نمٹنے کے لیے بھی حکومت نے اقدامات کیے۔ اس وقت ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے تاہم ہمیں کورونا کی وجہ سے خطرے کا سامنا ہے لیکن ہم نے معیشت کو بہتر بنانا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے زیادہ توجہ قیمتوں کے استحکام پر ہے۔ ہم سماجی تحفظ کے شعبے سے متعلق اقدامات میں توسیع کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں نہ آنے کی وجہ ہراساں کیا جانا بھی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام خاصا مشکل ہے۔ ہماری ایکسپورٹس میں زیرو ایف ٹی آئی ہے اور اپنے دوست ملک سعودی عرب سے پیسے بھی لیے لیکن معاشی طور پر استحکام کی طرف جا رہے تھے کہ کورونا آ گیا۔انہوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے گروتھ 92 فیصد سے 57 فیصد پر چلی گئی لیکن اب ہم نے معاشی استحکام سے نکل کر گروتھ کی طرف جانا ہے۔ 70کی دہائی میں ہم معاشی منصوبہ بندی کیا کرتے تھے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم شارٹ، میڈیم اورلانگ ٹرم پلاننگ کر رہے ہیں۔ اس وقت ہمیں زراعت کے شعبے کو بڑھانا ہے۔انہوں نے کہا کہ مارچ میں 46 فیصد ریونیو میں اضافہ ہوا جبکہ 20 اپریل تک گروتھ 92 فیصد تھی۔ برآمدی شعبے میں کوئی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہے۔ عام آدمی کے لیے مہنگائی میں کمی ہونی چاہیے۔