ہندوستان میں مغل شہنشاہ عالمگیر پر بحث،آخر وجہ کیا ہے؟

ہندوستان میں مغل شہنشاہ عالمگیر پر بحث،آخر وجہ کیا ہے؟
ایک نیوز نیوز: ہندوستان کے مغل شہنشاہ اور نگزیب عالمگیر کو انتقال کیے تین سو سال کاعرصہ بیت چکا ہے لیکن ہندوستان میں حالیہ چند ماہ میں ان پر ہونے والی بحث کافی زور پکڑ چکی ہے۔
اورنگزیب نے سولہ سو چھپن تا سترہ سو سات صدی عیسوی کے دوران لگ بھگ پچاس سال ہندوستان پر حکومت کی تاہم وہ تاریخ دانوں کی نظرمیں کبھی بھی پسندیدہ حکمران نہیں رہے۔ وہ اپنے والد کو قید میں ڈال کر اور اپنے بڑے بھائی کو قتل کرکے تخت پر آئے۔
تاہم دیگر مغل بادشاہوں کے مقابلے میں انہیں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ان کےلگڑ دادا شہنشاہ اکبرسیکولر بادشاہ کہلائے جاتے تھے۔ ان کے پڑدادا جہانگیر ہنر و فنون اور فن تعمیر سے محبت کے حوالے سے جانے جاتے تھے جبکہ ان کے والد شاہ جہان کو دنیا ایک رومانوی شخصیت اور تاج محل کے خالق کے طورپر جانتی ہے۔
لیکن اورنگزیب جوچھٹے مغل بادشاہ اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے ان کو عام طورپر ایک جابر حکمران اور توسیع پسند کے طورپر دیکھا گیا۔کہاجاتاہے کہ انہوں نے سخت شرعی قوانین اور ہندوئوں کے خلاف جزیہ نافذ کیا۔ انہیں ایک ایسی شخصیت کے طورپر پیش کیا گیا جو موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ سے نفرت کرتاتھااور مندروں کو تباہ کرنے کے احکامات دیتا تھا۔
قابل غور بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ازمنہ وسطیٰ کے ہندوستان میں ہوا لیکن حالیہ چندمہینوں کے دوران اس پر بڑے پیمانے پر بحث ہورہی ہے اور جو نفرت پھیلائی جارہی ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور اس بحث میں وزیراعظم مودی بھی شامل ہیں۔
بحث اس وقت شروع ہوئی جب ہندوئوں کے مقدس شہر بنارس یا وارا ناسی میں گیان واپی مسجد کا تنازعہ سامنے آئی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اورنگزیب کے حکم پر وشوا ناتھ نامی ایک بڑے مندر کو تباہ کرنے کے بعد اس کی جگہ تعمیر کی گئی۔یہی وجہ ہے کہ اب سوشل میڈیا پر اورنگزیب کا نام ٹرینڈنگ کررہا ہے اور عجیب عجیب حوالے دیے جارہے ہیں اور انڈیا کے قوم پرست حکمران بھی اس کے بارے میں باتیں کررہے ہیں۔اورنگزیب کے مظالم کے حوالے سے واراناسی میں ہونے والی ایک تقریب سے ےخطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ اس نے تلوار کے ذریعے تہذیب کو بدلنے کی کوشش کی۔اس نے انتہاپسندی کے ذریعے کلچر کو کچلنے کی سعی کی۔
گذشتہ ماہ سکھ گروتیغ بہادر، جن کا اسلام قبول نہ کرنے پر اورنگزیب کے حکم پر سر قلم کردیا گیا تھا، کے چار سو سالہ جنم دن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مودی کا کہنا تھا۔’’اگرچہ اورنگزیب نے بہت سے سر اڑائے لیکن وہ ہمارے ایمان کو متزلزل نہ کرسکا۔‘‘
مودی کے ان خیالات پر ایک کینیڈین امریکن صحافی اور تاریخ دان آڈرے ٹرسچک حیران رہ گئیں اور انہوں نے سوال کیا کہ ایک مغل بادشاہ جو تین سو سال پہلے انتقال کرچکا ہے ، ان پر مودی اتنی طویل تقریر کیوں کررہے ہیں؟مختلف ٹویٹس میں انہوں نے لکھا کہ ہندوقوم پرست سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہندوئوں کو سینکڑوں سال دبائے رکھا لہذا اب ہندوئوں کو بھی مسلمانوں کو اسی طرح دبانا چاہئیے اور ان سے بدلہ لینا چاہیے۔انہوں نے مزید لکھا کہ اورنگزیب کے نام کو ایک بہانے کے طورپر استعمال کیا جارہا ہےتاکہ آج کے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو قابل قبول بنایاجاسکے۔
اس طرح اورنگزیب کے خلاف نفرت ہر طرف سے پھیلائی جارہی ہے۔ مغل بادشاہ کو ’’قصائی‘‘ قرار دیتے ہوئے آگرہ کے مئیرنے کہا کہ اس کی ہر نشانی کو مٹادینا چاہیے۔ٹویٹر پر مغل شہنشاہ کو حملہ آور قرار دیا گیا جو ہندوئوں کو مٹانا چاہتا تھا۔کہا گیا کہ ہر اس عمارت کو بلڈوز کردینا چاہیے جو ہندوئوں کی عبادت کی جگہوں پر تعمیر کی گئیں۔
یہی نہیں بلکہ مہاراشٹرمیں اورنگزیب کا مقبرہ بھی بند کیاجاچکا ہے کیونکہ ایک مقامی سیاست دان نے اس کی ’’ضرورت‘‘ پر سوال اٹھایا تھا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ندیم رضاوی کا کہنا ہے کہ انڈیا کی مسلم اقلیت جو پہلے سے ہی شدید تشدد کاشکار ہے، کو بدنام کرنے کے لیے شہنشاہ اورنگزیب کا نام لینا ایک آسان ہدف ہے۔
پروفیسر رضاوی کہتے ہیں کہ مغل شہنشاہ نے کئی مندر گرائے اور ہندوئوں پر جزیہ لاگو کیا لیکن وہ ایک پیچیدہ شخصیت تھا اور مکمل طورپر خراب بھی نہیں تھا۔
وہ مزید کہتے ہیں،’’اس نے مندروں کی دیکھ بھال کے لیے سب سے زیادہ پیسے دیے۔وہ تو خود ’’دو تہائی ہندو‘‘ تھا کیونکہ اس کے لگڑ دادا شہنشاہ اکبر نے ایک راجپوت عورت سے شادی کی تھی۔‘‘
مقبول تاثرکے برعکس پروفیسر رضاوی کا کہنا تھا کہ اورنگزیب اپنی زاتی زندگی میں بنیاد پرست نہیں تھا۔وہ شراب بھی پیتا تھا اور ہندو دیوی دیوتائوں کا پسندیدہ ساز وینا بھی بجاتا تھا۔اس کے دور میں موسیقی کے حوالے سے سب سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اورنگزیب نے اپنی سیاسی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور اپنی اتھارٹی کو مضبوط بنانے کے لیے مذہب کو استعمال کیا، بالکل اسی طرح جس طرح آج کے انڈیا کے سیاست دان کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مان لیا کہ اس میں خرابیاں ہی خرابیاں تھیں تو کیا ہم آج کے دور میں اس کی نقل کرنے لگیں۔
’’وہ ایک جابر حکمران تھا اور آج سے تین سو سال قبل موجود تھا۔ اس کے زمانے میں ماڈرن جمہوریت تھی نہ کوئی آئین تھا جو اس کی رہنمائی کرتا۔ لیکن آج ہماری رہنمائی کے لیے انڈیا کا آئین بھی ہے اور پارلیمنٹ بھی۔ چنانچہ آپ سولہویں اور سترھویں صدی عیسوی میں کیے جانے والے کاموں کی نقل آج اکیسویں صدی میں کیسے کرسکتے ہیں؟‘‘
پروفیسررضاوی کے مطابق لہذا اگر آج کوئی سترھویں صدی کی سیاست کررہا ہے تو وہ اس جرم سے بھی بڑا جرم کررہا ہے جو اورنگزیب نے سترھویں صدی میں کیا۔