یوکرین پر روسی حملے کے بعد اس سال تیل کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ بیشتر مرکزی بینکوں نے شرح سود میں بھی اضافہ کر دیا ہے جس سے کساد بازاری کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔
سٹی بینک کے تجزیہ کاروں نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ ’تیل کے حوالے سے تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ تیل کی طلب صرف بدترین عالمی کساد بازاری میں ہی منفی ہوتی ہے ۔‘
سٹی گروپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر دنیا طلب کو کمزور کرنے والی کساد بازاری کا شکار ہوئی تو رواں برس کے آخر تک خام تیل کی قیمت 65 ڈالر فی بیرل تک گر سکتی ہے جو کہ 2023 کے آخر تک 45 ڈالر تک بھی جا سکتی ہے جبکہ برینٹ خام تیل اس وقت 106 ڈالر فی بیرل پر فروخت ہو رہا ہے۔
بلوم برگ کے مطابق فرانسسکو مارٹوکیا اور ایڈ مورس سمیت تجزیہ کاروں نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ تجزیہ اوپیک اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کی طرف سے کسی مداخلت کی عدم موجودگی اور تیل میں سرمایہ کاری میں کمی پر مبنی ہے۔
فی الحال سٹی بینک کے ماہرینِ اقتصادیات نہیں سمجھتے کہ امریکا کساد بازاری کا شکار ہو سکتا ہے، سٹی گروپ کے آؤٹ لک نے موجودہ توانائی مارکیٹ کا موازنہ 1970 کی دہائی کے بحرانوں سے کیا ہے۔