ایک نیوز: چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیرصدارت سینیٹ اجلاس جاری ہے۔ جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر دلاور نے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کوئی آسمانی صحیفہ نہیں اس کی وجہ سے صوبوں میں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے سرٹیفکیٹ کی طرف حکومت توجہ دے۔
سینیٹر برسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایسی کمیٹی تشکیل دیدی جائے جو وفاق اور صوبوں کے درمیان کوآرڈینیشن مؤثر بنائے۔ چیئرمین سینیٹ نے کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت دیدی۔
سینیٹر اسحاق ڈار کا نکتہ اعتراض پر اظہار خیال:
سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر اسحاق ڈار نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں تعلیم اور صحت پر اب بھی کم خرچ ہو رہا ہے۔ صوبوں میں وسائل ان کے پاس موجود ہیں۔ زیادہ تر لوگ کہتے ہیں وزیراعظم بننے کی بجائے بڑے صوبے کا وزیر اعلی بن جائیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبے مل کر وفاق کے ساتھ طے کریں۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں حوصلہ افزا رقم خرچ کریں۔
انہوں نے کہا کہ جو ہم سے جدا ہوجائے ان کے بارے میں برے ریمارکس نہیں دینے چاہئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سرتاج عزیز نے ملک کی بہترین خدمت کی۔ فاٹا کے معاملے پر وہ اکیلے نہیں ایک گروپ تھا جس نے کام کیا۔ اب اگر کچھ چیزیں باقی ہیں تو ان پر بات کی جاسکتی ہے۔ آپ سے گزارش ہے الفاظ حذف کیے جائیں۔
چیئرمین سینیٹ نے سینیٹر دوست محمد کے سرتاج عزیز متعلق الفاظ حذف کرادیئے۔
انہوں نے بتایا کہ بجٹ جو ہم نے پیش کیا اس میں ایک ہزار ایک سو پچاس ارب ترقیاتی بجٹ رکھا تھا۔ ترقیاتی بجٹ پر اگر حق تلفی ہوئی ہے اس پر ایکشن ہونا چاہیے۔ ترقیاتی منصوبوں سے بیروزگاری میں کمی اور جی ڈی پی بڑھے گی۔
پاکستانی قیدیوں کی سعودی عرب سے رہائی کی تفصیلات پیش:
کراؤن پرنس محمد بن سلمان کے دورے کے بعد رہا شدہ قیدیوں کی تفصیلات سینیٹ میں پیش کردی گئی ہیں۔ اس حوالے سے وزارت خارجہ نے تحریری جواب جمع کروادیا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ اکتوبر 2019 کے بعد سے اب تک 4130 پاکستانی رہا ہوئے۔ سال 2019 میں 545, 2020 میں 892, 2021 میں 916 پاکستانی رہا ہوئے۔ سال 2022 میں 1331 اور سال 2023 میں 447 پاکستانی رہا ہوئے۔ تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بتانا مشکل ہے کہ رہائی پانے والوں میں سے کتنے سعودی حکومت کی اعلان کردہ نرمی کی وجہ سے رہا ہوئے ہیں۔
وقفہ سوالات میں مختلف سینیٹرز نے حصہ لیا۔
سیںنٹر مشتاق کا چیئرمین پی سی بی کی تقرری پر سوال:
سینیٹر مشتاق نے چیئرمین پی سی بی کی تقرری پر سوال کرتے ہوئے کہا ہے کہ لکھا گیا ہے کہ پی سی بی چئیرمین صادق پبلک سکول کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں رہے ہیں۔ ان کی قابلیت دیکھیں وہ شوگر ملز کے چیئرمین رہے ہیں اور چیمبر آف کامرس کے سیکرٹری رہے ہیں۔
انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی سی بی نے لکھا ہے کہ کرکٹ ان کا مشغلہ ہے اور اگر مشغلہ ہے تو کرکٹ کا یہی حال ہوگا۔ سیاست میں آڈیو لیکس کا سنا تھا اب کرکٹ میں آڈیو لیکس سامنے آئی ہیں۔
وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر مشتاق احمد کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی تقرری نگران حکومت نے نہیں کی۔ موجودہ چیئرمین پہلے بھی کئی مرتبہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ پی سی بی کے چیئرمین کی کارکردگی حکومت جج کر سکتی ہے۔ موجودہ نگران حکومت نے ان کے اختیارات محدود کر دیئے ہیں۔ وہ کوئی بنیادی فیصلہ نہیں لے سکتے۔ چیئرمین پی سی بی کے الیکشن کا حکم بھی دیا ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد نے ادویات میں اضافے سے متعلق پوچھا تو وزارت صحت نے تردید کی۔
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ادویات کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ صرف مرگی کی دوا کی قیمت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ مجھے پتہ ہوتا تو ادویات ساتھ لے آتا۔
نگران وزیرصحت ندیم جان:
نگران وزیرصحت ندیم جان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت میں سات پیسے دوا مہنگی نہیں ہوئی۔ یہ اضافہ سی پی آئی پالیسی کے تحت اضافہ ہوا ہے ہم نے خود نہیں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی ثبوت آپکے پاس ہے تو لے آئیں۔ دس سے پندرہ قسم کی دوا متعلق ڈریپ نے بتایا کہ فارما کو نقصان ہورہا ہے۔ ہم نے ڈریپ کو کہا ہے فارما سے بات کریں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آئن لائن سروس اور پورٹل سروس سے مانیٹرنگ ہورہی ہے۔ اب تک ستتر شکایات درج ہوئیں۔ جس پر ایکشن ہوا۔ ہم روزانہ کی بنیاد پرذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی پر کارروائی کررہے ہیں۔
سینیٹر بہرامند تنگی:
سینیٹر بہرامند تنگی نے سوال کیا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بہت سی اہم ادویات کافی مہنگی ہوگئی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کو قائمہ کمیٹی کو بھجوایا جائے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ:
سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ ادویات مہنگی ہونے کے باوجود صحت حکام کو پتہ تک نہیں۔ بتایا جائے اسپتال کی مد میں کتنی ادویات جارہی ہیں اور کتنے کی خریدی جارہی ہیں؟
نگران وزیر صحت ندیم جان:
نگران وزیرصحت ندیم جان نے جواب دیا کہ ادویات کی شارٹیج ہے لیکن اتنا نہیں کہ کنٹرول نہ ہوسکے۔ ہم ادویات کو دیکھ رہے ہیں آپ بھی ہماری آواز بنیں۔
سینیٹر فوزیہ ارشد:
سینیٹر فوزیہ ارشد کا کہنا تھا کہ کہا گیا عالمی ادارہ صحت اور یونیسف ہمیں فنڈز نہیں دیتے۔کیا آپکے کہنے پر وہ فنڈز دیتے ہیں؟ ضروریات کیا آپ بتاتے ہیں؟
نگران وزیر صحت ندیم جان نے جواب دیا کہ ہم انہیں اپنی ضروریات بتاتے رہتے ہیں۔ جسے وہ اپنے اسٹاک سے مہیا کرتے ہیں۔ ہمارا سسٹم بہت کمزور ہے اس پر سرمایہ کاری ہونی چاہیے۔
سینیٹر بہرامند تنگی نے سوال اٹھایا کہ غیر معیاری اور جعلی ادویات کی روک تھام متعلق کیا حکمت عملی ہے؟ اگر سب بہترین وسائل موجود ہیں تو ملک میں ایک نمبر دو نمبر نہیں بارہ نمبر ادویات کیوں ہیں؟
سینیٹر محسن عزیز:
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ سننے میں آرہا ہے کہ پاکستان میں کوئی نئی قسم کا کورونا آیا ہے۔ کیا یہ سچ ہے اور اس کے لئے حکومت کیجانب سے کیا اقدامات کئے جارہے ہیں؟ جس پر نگران وزیر نیشنل ہیلتھ سروسز ندیم جان نے جواب دیا کہ ابھی تک کوئی بھی کورونا کا نیا کیس پاکستان میں نہیں آیا۔ ہم اس معاملے پر ریڈ الرٹ پر ہیں۔ ہم نے تین مرتبہ ایڈوائزری بھی جاری کی ہے۔ پیمرا سے گزارش ہے کہ ایڈوائزری کو چلائیں۔ ایڈوائزری میں واضح کہا ہے کہ کوئی نیا کیس نہیں آیا تاہم احتیاط کی جائے۔
یوریا کھاد کی قلت اور بڑھتی ہوئی قیمتوں سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس:
سینیٹ میں یوریا کھاد کی قلت اور بڑھتی ہوئی قیمتوں سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی نے کہا کہ زراعت ہماری معیشت کا ایک چوتھائی ہے۔ ہم جتنے منصوبے بنارہے ہیں وہ زراعت کے بغیر نہیں چل سکتے۔
انہوں نے بتایا کہ دولاکھ بیس ہزار ٹن یوریا کھاد درآمد کی گئی ہے۔ یوریا کھاد کے دو کارخانے بند رہے جس کی وجہ یوریا کھاد میں کمی آئی ہے۔ باہر سے کھاد منگوانے کا فیصلہ لیٹ کیا گیا جس کی وجہ سے کھاد مہنگی ہوئی ہے۔ اب صوبوں کو یوریا کھاد کی سپلائی بڑھائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مافیاز کے خلاف ایف آئی آرز کا اندراج بھی کروا رہے ہیں۔ اس وقت یوریا کھاد کی قیمت 4 ہزار روپے ہے۔