ایک نیوز: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’ سیاسی سیز فائر‘ کی ضرورت ہے۔اگر سیاست دانوں نے مل کر اتفاق رائے سے فیصلے نہ کیے تو پھر یہ فیصلے کوئی اور کرے گا۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی سیاسی قیادت کا امتحان ہے کہ ان کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے عوام پریشان ہیں۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ مشکلات میں اضافہ نہ کریں بلکہ مشکل فیصلے کریں اور اتفاق رائے سے کریں۔
’تمام سیاسی قیادت کو معاشی اور اقتصادی چیلنجز اور دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مل بیٹھنا ہی ہوگا۔ یہ تمام بحرانوں کا حل ہے۔ مشاہد حسین کہتے ہیں کہ ایک طرف گوادر میں جب پرامن احتجاج ہوتا ہے تو ان کو تو ڈنڈے مارے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف جب کوئی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے تو ان سے مذاکرات ہوتے ہیں۔
’طالبان کے ساتھ ماضی میں بھی کبھی مذاکرات اور کبھی ضرب عضب جیسے آپریشن کیے گئے۔ پالیسی ایک اور مستقل ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما کہتے ہیں کہ ’فیصلہ سازوں کو ایک بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ملک میں سیاسی انداز تبدیل ہو رہے ہیں اب لوگ بغیر کسی بڑی سیاسی قیادت کے مقامی سطح پر حقوق کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں۔‘
’مالاکنڈ، گوادر اور کراچی میں عوامی اجتماعات اس کی بڑی مثال ہیں۔ اس لیے جو بھی فیصلہ کریں اس حوالے سے عوامی رائے عامہ کو بھی سامنے رکھیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ تناؤ اور دوطرفہ بیانات کے حوالے سے مشاہد حسین سید نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہماری طرف سے رویہ ٹھیک ہونا چاہیے۔
انہوں نے پاک بھارت کی طرز پر افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہاٹ لائن قائم کرنے کی تجویز دی۔
افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے سوال پر مشاہد حسین سید نے کہا کہ گرم تعاقب کی بات ہی نہ کریں۔ گرم تعاقب کی بات وہ ممالک کرتے ہیں جو اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں۔
’ایسے ممالک کہتے ہیں کہ ہم بڑی طاقت ہوتے ہوئے اپنی قوت کا مظاہرہ کریں گے۔ جیسے امریکہ نائن الیون کے بعد چھوٹے ممالک کے حوالے سے گرم تعاقب کی بات کرتا تھا جیسے انڈیا کرتا رہا ہے پاکستان کے ساتھ۔۔
یہ زبان ہی نہ استعمال کریں یہ ہمیں زیب نہیں دیتا۔ ہم کوئی سامراجی قوت نہیں ہیں۔ہم ایک برادر اسلامی ملک کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں برابری کی بنیاد پر عزت و احترام کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ کوئی ایسی صورت حال آئے گی کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کی طرف جائے، کیونکہ پاکستان کے ساتھ اس وقت عالمی برادری تعاون کر رہی ہےآپ کے جو قریبی دوست ہیں ساتھی ہیں انھوں نے ماضی میں بھی مدد کی اور اب بھی مدد کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ان میں چین اور سعودی عرب سرفہرست ہیں جنہوں نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات اس وقت معمول پر ہیں کیونکہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
تاہم سیلاب میں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ وہ تعاون نہیں کیا جتنا اسے کرنا چاہیے تھا۔ جنیوا کانفرنس میں اگر پاکستان نے اپنا مقدمہ دلیری کے ساتھ پیش کیا تو امید ہے کہ اہداف حاصل ہو جائیں گے۔