ایک نیوز: لاہور ہائیکورٹ نے کم عمر ڈرائیورز کو عدالت میں پیش کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ ایس ایچ او بچوں کو شخصی ضمانت پر رہا کرے۔
لاہور ہائیکورٹ میں کم عمر ڈائیورز کا نام کریمنل ریکارڈ میں درج کرنے کے معاملے پر سماعت ہوئی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیاء باجوہ نے کیس پر سماعت کی۔
عدالتی حکم پر سی ٹی او لاہور اور ایس پی سی آر او عدالت میں پیش ہوئے۔ ایس پی سی آر او نے عدالت میں بیان دیا کہ کم سن بچوں کا کریمنل ریکارڈ بن رہا ہے۔ ہمارا سسٹم ایف آئی آر درج سے لیکر اخراج تک مکمل کمپیوٹرائز ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کے ڈی آئی جی، آئی ٹی نے کہا تھا کہ کم سن بچوں کا ریکارڈ آن لائن نہیں ہوگا۔ عدالتی حکم کے بعد لائسنس بنوانے والوں کی کیا تعداد رہی؟
سی ٹی او نے بتایا کہ 14 لاکھ سے زائد لرنر لائیسنس بن چکے ہیں۔ کم سن ڈرائیورز کے خلاف 7032 ایف آئی آرز ہو چکی ہیں، ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانےوالوں 9035افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ 16387 ٹوٹل ایف آئی آرز اس ضمن میں درج ہوئی ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ایس ایچ او کے پاس یہ اختیار ہے کہ قابل ضمانت جرائم پر ضمانت لے سکے؟ سی ٹی او نے کہا کہ جی، ایس ایچ او کے پاس یہ اختیار ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر تھانوں میں گاڑیوں کی جگہ ختم ہو گئی ہے، تو آپریشن تو نہیں رک سکتا، سی ٹی او نے کہا کہ دو تھانوں کے پولیس والوں کے خلاف بھی ایف آئی آرز ہوئی ہیں۔
عدالت نے سی ٹی او سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سی ٹی او صاحب، آپ اسے ایک مثالی کیس بنائیں۔ کسی کو بھی معافی نہیں ملنی چاہیے۔ سوشل میڈیا پر یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ پولیس والے اس حوالے سے لوگوں کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں، اس معاملے پر بھی نظر رکھیں، یہ بھی سامنے آیا ہے کہ آپ نے لائیسنس کی فیس بڑھا دی ہے۔ پولیس کے خلاف اگر مزید شکایات آتی ہیں تو اس پر بھی ایکشن لیں۔
درخواستگزار کے وکیل نے کہا کہ جن اسکول کے بچوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، انہیں یونیفارم میں ہی حوالات میں ڈال دیا جاتا ہے۔
رانا سکندر ایڈووکیٹ نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے ڈرائیونگ کرنے والے کم عمر بچوں کو رہا کرنے سے متعلق ایس ایچ اوز کو احکامات جاری کردیے۔ عدالت نے ڈرائیونگ کرنے والے کم عمر بچوں کو عدالتوں میں پیش کرنے سے روک دیا۔ جسٹس علی ضیاء باجوہ نے حکم دیا کہ ایس ایچ او شخصی ضمانت پر کم عمر بچوں کو رہا کریں۔
عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔