ایک نیوز نیوز: سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ نیب ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہوئیں تو ہی جائزہ لیں گے، اپوزیشن کو اعتراض ہے تو اسمبلی میں بل لے آئے۔
سپريم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی، کیس کی پیروی کے لئے وفاقی حکومت نے مخدوم علی خان کی خدمات حاصل کر لیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ ترامیم کے بعد آمدن سے زائد اثاثوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے تمام مقدمات ختم ہو جائیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اپوزیشن کو اعتراض ہے تو اسمبلی میں بل لے آئے، جمہوریت میں پارلیمنٹ کا کردار اہم ترین ہے، اس نے قانون بنایا ہے تو احترام کرنا چاہیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ترمیم کون لایا اس سے غرض نہیں، اگر عوام کے پیسے پر کرپشن ہوئی ہے تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، ترامیم کا جائزہ صرف بنیادی حقوق سے متصادم ہونے پر ہی لے سکتے ہیں۔
حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا عمران خان نے یہی ترامیم آرڈیننس کے ذریعے کی تھیں، پہلے حامی تھے تو آج مخالفت کیوں کر رہے ہیں، صدر کا وزیراعظم کو لکھا گیا خط عمران خان کی درخواست کا حصہ کیسے بنا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے تیسرے چیمبر میں تبدیل کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اگر مقاصد صرف سیاست کرنا ہے تو عدالت کے بجائے کوئی اور فورم استعمال کریں۔
چيف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت ہماری معیشیت تباہی کے دہانے پر ہے، عدالت نے مفاد عامہ کو بھی دیکھنا ہے۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر قومی احتساب بیورو سے جواب طلب کر لیا، اور درخواست پر سماعت 19 اگست تک ملتوی کردی۔