سولر پینل درآمد کرنے کی آڑ میں منی لانڈرنگ :تحقیقات کی ہدایت

 سولر پینل درآمد کرنے کی آڑ میں منی لانڈرنگ :تحقیقات کی ہدایت
کیپشن: سولر پینل درآمد کرنے کی آڑ میں منی لانڈرنگ :تحقیقات کی ہدایت

ایک نیوز :سینیٹ خزانہ کمیٹی نے ایف بی آر حکام کو سولر پینل درآمد کرنے کی آڑ میں 67ارب روپے سے زائد منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے کی ہدایت کر دی۔

تفصیلات کےمطابق چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ ایسے کیسز میں پاکستان کسٹمز کی اکثر سستی دیکھنے میں ملتی ہے اورواردات ہونے کے بعد ایف آئی آر درج کر کے ملبہ عدالتوں پر ڈال دیا جاتا ہے، کمیٹی کا اجلاس چئیرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ،اجلاس میں کمیٹی اراکین کے علاوہ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک ،ممبر کسٹمز ایف بی آر سمیت دیگر حکام نے شرکت کی ۔

اجلاس کے دوران شمسی توانائی پینل کی درآمد پر اوور انوائنسگ اور منی لانڈرنگ کے معاملے پر اسٹیٹ بنک اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو آمنے سامنے آگئے ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک نے کہاکہ ایف بی آر نے گزشتہ اجلاس میں قصور وار بینکوں کو ٹھہرایا تھا ایف بی آر یہ بتائے انہیں ڈیٹا کہاں سے ملا ہے انہوں نے کہاکہ معاملے کی تحقیقات ہم نے ہی کیں، متعلقہ اداروں کو رپورٹس بھیجی ہیں ۔

اجلاس کے دوران ممبر ایف بی آر نے کمیٹی کو بتایا کہ5 سال کے دوران 69 ارب کی اوور انواسئنگ کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی ہے ،انہوں نے کہاکہ ہم معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں،ہمیں کچھ وقت دیں ہم نے سولر پینل کی درآمد پر 21 بینکوں سے تفصیلات مانگی ہیں ایک امپورٹر نے 14 ارب روپے اور دوسرے نے 11 ارب روپے کیش بینکوں میں جمع کروائے انہوں نے کہاکہ اگر متعلقہ بینک پہلے ریڈ فلیگ لہرا دیتے تو اس کو پہلے روک لیتے انہوں نے کہاکہ سات کمپنیوں نے پانچ سالوں میں 70 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ یہ سارا کام اس وقت ہوا جب ملک میں ایل سی کھولنے پر پابندی تھی اس موقع پر ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک نے کہاکہ جب اسٹیٹ بینک نے درآمد کی اجازت دینا شروع کی تو اس میں یہ مشکوک درآمدات نظر آئیں انہوں نے کہاکہ یہ تجارتی منی لانڈرنگ تھی اس دوران متعلقہ بینکوں نے انکے خلاف 37 دفعہ مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹ جاری کی انہوں نے کہاکہ اگر 20 لاکھ سے زیادہ کیش رقم جمع کروائی جائے تو بینک اس کو ایف ایم یو کو رپورٹ کرتا ہے۔

 اجلاس کے دوران پولیٹیکل ایکسپوزڈ پرسنز کے بینک اکائونٹس کی بندش اور کھولنے میں مشکلات کے معاملے پرچیرمین کمیٹی نے کہاکہ بینک اکاؤنٹس کھولنے کے حوالے سے شکایات بڑے عرصہ سے ہیں جس پر ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہاکہ ہر بینک میں ایک فوکل پرسن تعنیات ہے جو صرف ان مسائل کو دیکھتا ہے انہوں نے کہاکہ مرکزی بینک میں بھی ایک فوکل پرسن تعنیات ہے اور جس کو بھی اکاونٹس کے حوالے سے شکایات ہیں وہ فوکل پرسن سے رابطہ کر سکتے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ اسٹیٹ بینک کے فوکل پرسن کو گزشتہ ماہ تین کیسز سے متعلق آگاہ کیا گیا اورمعاملہ پہنچنے پر مسئلہ حل ہو گیا انہوں نے کہاکہ اگر کسی کی شکایت ہے تو وہ کمیٹی کو بتائے ہم ان کا مسئلہ حل کریں گے۔اجلاس کے دوران ملک میں شرح سود کی بلند ترین سطح کے کاروبار پر اثرات کے حوالے سے بحث کے دوران ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے بلند ترین شرح سود کومہنگائی میں کمی کیلئے ضروری قرار دے دیا تاہم کمیٹی اراکین نے ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کی منطق پر اظہار تشویش کیا ۔