ایک نیوز: سندھ ہائیکورٹ میں ملک میں انٹرنیٹ سروس معطل کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ جس میں وفاقی حکومت اور پی ٹی اے نے جواب جمع کرانے کے لیے مہلت مانگ لی۔ عدالت نے 24 اکتوبر کو تحریری جواب فریقین سے طلب کرلیا۔
قائمقام چیف جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے کہ درخواست پر صوبائی حکومت کی جواب کی ضرورت نہیں ہے، وفاقی حکومت کے جواب پر قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔
درخواستگزار کے وکیل نے دلائل دیے کہ نو مئی کے واقعہ کے بعد ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی، ٹوئٹر سمیت دیگر سوشل ایپس بھی بند کردی گئیں، 11 مئی کو وفاقی وزیر داخلہ نے ٹی وی پر کہا تھا ایک دن میں سوشل میڈیا پر عائد پابندی ختم کردی جائے گی،12 مئی کو وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ چئیرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت 17 مئی کو زیر سماعت ہے، وزیر داخلہ نے کہا انٹرنیٹ / پبلک سوشل میڈیا پر پابندی 17 مئی تک توسیع کردی گئی۔
درخواست گزار کے وکیل جبران ناصر نے کہا کہ انٹرنیٹ پر پابندی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی روکنا بھی حکومتی پالیسی کے برخلاف ہے، ای کامرس یا انٹرنیٹ کے ذریعے اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے، بالخصوص یومیہ اجرت کمانے والوں کی بڑی تعداد بائیکیا اور فوڈ پانڈا جیسے کاروبار سے منسلک ہیں، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر پابندی سے یومیہ اجرت کمانے والے بھی براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ غیر معینہ مدت تک انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر پابندی کو غیر قانونی اور بلاجواز قرار دیا جائے، وفاقی حکومت اور فریقین کو آئندہ ایسے اقدامات سے روکا جائے۔