لاہورہائیکورٹ نےجسمانی ریمانڈ کیلئےنئےاصول وضع کردیئے

لاہورہائیکورٹ نےجسمانی ریمانڈ کیلئےنئےاصول وضع کردیئے
کیپشن: لاہورہائیکورٹ نےجسمانی ریمانڈ کیلئےنئےاصول وضع کردیئے

ایک نیوز:  لاہور ہائیکورٹ نے پولیس کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری کے وقت پروسیجر اختیار نہ کرنے پر جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق ندیم نے 9 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا جس کے مطابق پروسیجر کے تحت ریمانڈ پیپر تیار نہ کرنے پر ڈی پی او بہاولپور، ایس ایچ اوز اور تفتیشی پر 5 روز میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

عدالت نے کسی بھی ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کے لیے نئے اصول وضع کردیئے۔

عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ ملزم کے جسمانی ریمانڈ کے لیے ضمنی میں صفحے کے آخر پر سیریل نمبر اور ایف آئی آر نمبر درج ہونا چاہیے، ملزم کے خلاف کیس ڈائری باقاعدہ رجسٹرڈ ہو جس پر متعلقہ ایس ایچ او کے دستخط ہوں، ملزم کے خلاف ایف آئی آر پر بھی سیریل نمبر درج ہو اور روزنامچہ میں بھی اسی روز اندراج ہو۔

عدالت نے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ پولیس رولز میں لکھی ہدایات کے مطابق ریمانڈ پیپر تیار کیا جائے، چالان پر بھی سیریل نمبر کا اندراج لازمی ہونا چاہیے، جسٹس طارق ندیم نےاس حوالے سے پولیس، اینٹی کرپشن ،ایف آئی اے کو احکامات جاری کردئیے،عدالتی فیصلے کی کاپی آئی جی ،اینٹی کرپشن ،ایف آئی اے کو بھجوانے کا حکم بھی دیدیا گیا ہے،تمام ادارے 3 ماہ میں عدالتی حکم میں دی گئی ہدایت پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔

عدالت نے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ نسرین بی بی نے بیٹے محمد سلیم کی گرفتاری کے خلاف درخواست دائر کی تھی،عدالتی حکم پر بہاولپور پولیس نے رپورٹ جمع کرائی،پولیس رپورٹ کے مطابق محمد سلیم اور علی رضا کو 28 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا،پولیس نے ملزمان کا علاقہ مجسٹریٹ سے جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کیا،درخواست گزار نے 6ستمبر کو درخواست دائر کی اور 7ستمبر کو سماعت ہوئی،پولیس نے 7 ستمبر کو ملزمان کی گرفتاری ظاہر کی۔ 

عدالت نے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ ایف آئی آر میں درخواست گزار کا بیٹا نامزد نہیں تھا بلکہ اسے ضمنی بیانات میں نامزد کیا گیا،عدالتی نقط نظر کے مطابق صرف شہری کی غیر قانونی حراست کو درست ثابت کرنے کےلیے ضمنی بیانات میں گرفتاری ڈالی گئی،پولیس کی عام پریکٹس یہ ہے کہ ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد اگلے روز عدالت پیش کیا جاتا ہے،موجودہ کیس میں پولیس نے اسی روز ملزمان کو علاقہ مجسٹریٹ کے روبرو پیش کر کے ریمانڈ لیا،اسی نوعیت کے ایک اور کیس میں عدالت نے پولیس کو ہدایت دی تھیں۔ 

عدالت نے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ اور تفتیشی افسر نے عدالتی ہدایات پر عمل درآمد نہیں کیا،موجودہ کیس کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود پولیس نے مینول روزنامچے میں تفصیل بال پوائنٹ کی بجائے کچی پینسل سے درج کیں،کیس ڈائری کے پرنٹس بھی مختلف رنگوں میں ہیں جو کہ پولیس رولز 25٫24 کی خلاف ورزی ہے،قانون کے مطابق کرسٹل کلئیر ہے کہ کیس ڈائری لکھتے وقت نمبرنگ اور ہر صفحے پر پولیس کی  اسٹامپ ہونی چاہیے،تفتیشی افسر 2 کاربن کاپی بھی بنانے کا پابند ہوتا ہے،موجودہ کیس میں تفتیشی نے ریمانڈ پیپر پر گرفتاری کی تاریخ اور وقت درج ہی نہیں کیا۔

عدالت نے تحریری فیصلے میں مزید لکھا ہے کہ  جوڈیشل مجسٹریٹ نے حقائق کے بغیر ہی ملزمان کا ریمانڈ دے دیا،ملزم علی رضا اور محمد سلیم کے جسمانی ریمانڈ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے،ملزم محمد سلیم کے خلاف شواہد نہ ہونے پر مقدمے سے ڈسچارج کیا جاتا ہے،شریک ملزم علی رضا کو حفاظتی ضمانت دی جاتی ہے۔