ایک نیوز:سرجن جنرل نے صحتِ عامہ سے متعلق رپورٹ میں تنہائی کو صحت کے لیے انتہائی مضر قرار دے دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکہ کے سرجن جنرل نے صحتِ عامہ سے متعلق رپورٹ میں تنہائی کو صحت کے لیے انتہائی مضر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تنہائی صحت کے لیے اتنی ہی خطرناک ہے جتنا کہ روزانہ ایک درجن سگریٹ پینا ہے۔
81 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا ہے گیا ہے کہ تقریباً نصف امریکی بالغوں کا کہنا ہے کہ وہ تنہائی کے تجربے سے گزرے ہیں۔ڈاکٹر مورتی کا کہنا ہے کہ’’ اب ہم جانتے ہیں کہ تنہائی ایک عام احساس ہے جس کا بہت سے لوگ تجربہ کرتے ہیں۔ یہ بھوک یا پیاس کی طرح کا احساس ہے‘‘۔ ’’ امریکہ میں لاکھوں لوگ غیر واضح حالات میں جدوجہد کر رہے ہیں اور یہ درست نہیں ہے۔ اسی لیے میں نے یہ ایڈوائزری جاری کی تاکہ اس جدوجہد کو سامنے لایا جا سکے جس کا تجربہ بہت زیادہ لوگ کر رہے ہیں‘‘۔
اس رپورٹ کا مقصد تنہائی کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے لیکن اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے وفاقی فنڈنگ یا پروگرامنگ کو مختص کرنا نہیں ہے۔ حالیہ عشروں میں اپنی عبادت گاہوں ، کمیونٹی کی تنظیموں اور حتیٰ کہ اپنے خاندان کے افراد سے رابطوں اور تعلق گھٹانے والے افراد میں تنہائی کے احساسات میں مستقل طور پر اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ 60 برسوں کے دوران اکیلے زندگی گزارنے والے گھرانوں کی تعداد بڑھ کر دو گنا ہو گئی ہے۔
کورونا وبا کے پھیلاؤ نے اس بحران کی شدت میں مزید اضافہ کیا ہے کیونکہ اس عالمی وبا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اسکولوں اور کام کی جگہوں پر لوگوں کی آمد و رفت روکنا یا محدود کرنا پڑی اور لاکھوں امریکی اپنے رشتے داروں یا دوستوں سے دور الگ تھلگ زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔
امریکی سرجن جنرل کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس نے دوستوں کے گروپوں کو نشانہ بنایا اور دوستوں کے ساتھ گزارے جانے والے وقت کو محدود کر دیا۔2020 میں امریکیوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ اوسطاً روزانہ تقریباً 20 منٹ گزارے، جب کہ اس سے قبل یہ دورانیہ تقریباً 60 منٹ تھا۔
ہائی کی وبا نوجوانوں ، خاص طور 15 سے 24 سال کی عمر کے افراد پر زیادہ شدت سے اثر انداز ہو رہی ہے۔ نوجوانوں نے بتایا کہ اس عرصے کے دوران دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کی سطح میں 70 فی صد کمی ہوئی ہے۔ تنہائی قبل از موت کے خطرے میں 30 فی صد اضافہ کر دیتی ہے اور ایسے افراد جن کے سماجی تعلقات اور رابطے کم ہوتے ہیں ان میں فالج اور دل کی بیماری میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق تنہائی میں رہنے والے افراد میں ڈپریشن، اضطراب اور دماغی امراض میں مبتلا ہونے کا امکان بڑھ جاتاہے۔
سرجن جنرل نے سکولوں، ٹیکنالوجی کمپنیوں، کمیونٹی تنظیموں، والدین اور دیگر لوگوں سے ایسی تبدیلیاں لانے کی اپیل کی ہے جس سے ملک میں روابط کو فروغ ملے۔ انہوں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ کمیونٹی گروپس میں شمولیت اختیار کریں اور دوستوں سے ملاقات کے دوران اپنے فون پر مصروف ہونے سے احتراز کریں۔ انہوں نے روزگار فراہم کرنے والوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ریموٹ کام سے متعلق اپنی پالیسیوں کے بارے احتیاط سے سوچ بچار کریں اور صحت کے اداروں سے کہا ہے کہ وہ اپنے ڈاکٹروں کو تنہائی کے صحت پر مرتب ہونے والے خطرات کو پہچاننے کی تربیت فراہم کریں۔
ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ نے تنہائی کے مسئلے میں تیزی سے اضافہ کیاہے۔ جو لوگ روزانہ دو گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں ان میں سماجی طور پر الگ تھلگ ہونے کے احساس کا امکان ان لوگوں کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہوتا ہے جو سوشل میڈیا پر روزانہ 30 منٹ سے کم صرف کرتے ہیں۔