ایک نیوز: بلوچستان میں دہشتگردوں کے ہاتھوں خواتین کے استعمال کی گھناؤنی حقیقت بے نقاب ہوگئی۔
بلوچستان میں جاری دہشت گردی میں خواتین خود کش حملہ آوروں کا استعمال دہشتگردوں کی ذہنیت کی واضح عکاسی کرتا ہے ، خواتین کےخود کش حملوں میں اب تک معصوم شہریوں سمیت سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں بھی ہوچکی ہیں، ذرائع کے مطابق بلوچستان میں دہشتگرد تنظیمیں خواتین کو ڈھال بنا کر اپنی دہشتگردانہ کارروائیوں کو سرانجام دیتی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خواتین خودکش بمباروں کے استعمال کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سیکورٹی جانچ پڑتال سے بچنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، خواتین کو کم مشکوک سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ دہشتگردوں میں شمولیت کے لیے موزوں ہدف بن جاتی ہیں،دہشتگرد تنظیمیں منظم طریقہ کار کے تحت خواتین کو اپنے گھناؤنے مقاصد کیلئے ہدف بناتی ہیں ، دہشت گرد گروہ نوجوان خواتین کو خودمختاری کے جھوٹے وعدوں سے ورغلاتے ہیں اور جال میں پھنسا لیتے ہیں۔
دہشت گرد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کمزور نوجوان خواتین کی بھرتی کے لیے استعمال کرتے ہیں ، جعلی اکاؤنٹس اور آن لائن حربے دہشتگردی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، دہشتگردوں کی جانب سے نفسیاتی حربے اور بلیک میلنگ خواتین کو مجبور کرنے کے عام ہتھکنڈے ہیں ، دہشتگردوں کی جانب سے خواتین کی جذباتی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر انہیں دہشتگردانہ سرگرمیوں میں دھکیلا جاتا ہے ،معاشی مسائل اور سماجی تنہائی نوجوان خواتین کو دہشتگردوں کے لیے آسان ہدف بنا دیتی ہیں۔
دہشت گرد گروہ نوجوان خواتین کو خودمختاری کے جھوٹے وعدوں سے ورغلاتے ہیں اور انہیں استحصال کے جال میں پھنسا دیتے ہیں،سوشل میڈیا دہشت گردوں کے لیے ایک خطرناک ہتھیار بن چکا ہے جو کمزور خواتین کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے نشانہ بناتے ہیں، خواتین کو جذباتی بلیک میلنگ اور دھوکہ دہی پر مبنی تعلقات کے ذریعے انتہا پسندی میں دھکیلا جاتا ہے،روشن مستقبل کا وعدہ اکثر انتہا پسندی اور جبر کے بھیانک خواب میں بدل جاتا ہے۔
بی ایل اے اور دیگر انتہا پسند گروہ اقتصادی مشکلات اور سماجی تنہائی کا فائدہ اٹھا کر خواتین کو اپنی صفوں میں بھرتی کرتے ہیں، بلوچستان میں خودکش بمبار خواتین میں شاری بلوچ، ماہل بلوچ اور عدیلہ بلوچ جیسی خواتین دہشتگردوں کی آلہ کار بن گئیں، بی ایل اے کے کارندے تعلیم یافتہ خواتین کو خودکش مشنز کے لیے منظم طریقے سے ہدف بناتے ہیں۔
عدیلہ بلوچ بھی ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں جودہشتگردوں کے ایجنڈے کے لیے ایک قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی تھیں ،عدیلہ بلوچ کو بی ایل اے نے آن لائن جوڑ توڑ اور بلیک میلنگ کے ذریعے اپنے جال میں پھنسایا ،عدیلہ بلوچ کو سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کیا گیا جہاں ان کے جذبات سے کھیلا گیا اور انہیں پھنسایا گیا ،عدیلہ بلوچ کو خودمختاری اور روشن مستقبل کے خواب دکھا کر اسے دہشتگردوں کیطرف دھکیل دیا گیا ،بی ایل اے نے عدیلہ بلوچ کی ذاتی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اسے دہشت گردی میں ملوث کیا۔
عدیلہ بلوچ جو کہ ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں، دہشتگردوں کےایجنڈے کے لیے ایک قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی تھی ، خواتین خودکش بمباروں کےحملوں میں اب تک پاکستانی شہریوں سمیت سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں بھی ہوچکی ہیں، بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن اوربلوچ یکجہتی کمیٹی جیسی تنظیمیں سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتی ہیں ،ان تنظیموں کا ہدف سماجی طور پر الگ تھلگ، مالی مشکلات کا شکار یا اخلاقی مسائل میں الجھی ہوئی خواتین ہوتی ہیں۔
عدیلہ بلوچ کی کہانی دہشتگردوں سےمتاثرہ بلوچ خاتون سے زندہ بچ جانے والی خاتون تک کے سفر کی کہانی ہے ،یاد رہے کچھ عرصہ قبل گرفتار کی گئی عدیلہ بلوچ نے پریس کانفرنس میں اس حوالے سے ہوشربا انکشافات کئے تھے ،عدیلہ بلوچ نے کہا تھا دہشت گردی کے لیے نوجوانوں کو ورغلایا جارہا ہے، میں غلط راستے پر چل رہی تھی، مجھے بہکایا گیا تھا، دہشت گرد اپنے مقاصد کے لیے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں،عدیلہ بلوچ اب دہشت گردوں کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں اور نوجوانوں کو محتاط رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کئی منصوبہ بند خودکش حملوں کو کامیابی سے ناکام بنایا ہے، وہ خواتین خودکش بمبار جو خود کو دھماکے سے اڑانے سے باز رہیں یا بازیاب ہو ئیں ، انہیں عام شہریوں کی طرح معاشرے میں قبول کیا گیا ہے، انتہا پسندی کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار آگاہی پھیلانا ہے تاکہ ذہنی تبدیلی کو روکا جا سکے، آگاہی اور کھلی بات چیت انتہا پسندی کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
تعلیم اور خاندانی تعاون دہشتگردوں کیخلاف سب سے مضبوط رکاوٹ ہیں، خواتین کو ترغیب دی جانی چاہیے کہ وہ ہدف بننے کی صورت میں اپنے خاندان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد حاصل کریں،تعلیم اور خاندانی حمایت دہشت گردوں کی سازشوں اور بلیک میلنگ کے خلاف سب سے مضبوط دفاع ہیں، سوشل میڈیا پر جعلی دوستیاں اکثر حقیقی زندگی میں دہشت گردوں کے دھوکہ دہی اور جبر کا باعث بنتی ہیں۔
دفاعی ماہرین کے مطابق دہشت گرد نیٹ ورکس میں پھنسی خواتین شدید نفسیاتی صدمے کا سامنا کرتی ہیں،خاندانوں کو چوکنا رہنا چاہیے اور اپنے پیاروں کو انتہا پسندوں کے جال میں پھنسنے سے بچانے کے لیے جذباتی تعاون فراہم کرنا چاہیے، خواتین کی حقیقی خودمختاری، تعلیم اور ثابت قدمی میں مضمر ہے ۔
بلوچستان :دہشتگردوں کے ہاتھوں خواتین کے استعمال کی گھناؤنی حقیقت بے نقاب
Mar 04, 2025 | 15:45 PM