ایک نیوز : سینیٹ میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کی شدید مذمت کی گئی اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ پر زور دیا گیا۔
سینیٹ کا اجلاس مرزا آفریدی کی زیرصدارت ہوا ۔اجلاس میں سینیٹر بہرہ مند تنگی نے اراکین کی تنقید کے باعث سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنے کی قرارداد واپس لے لی ۔تاہم سینیِٹر سیف اللہ ابڑو نے اس قرارداد کو نوجوانوں کی تذلیل قرار دیتے ہوئے قرارداد کو ایوان میں پیش کرنے کی مذمت کو بھی منظور کرنے کا مطالبہ کیا ۔
اپوزیشن رکن بہرہ مند تنگی کی تقریر کے دوران شور شرابہ،ڈپٹی چیئرمین اپوزیشن ارکان کو اپنی سیٹوں پر بیٹھنے کی ہدایت کرتے رہے ۔
ایجنڈے پر کارروائی مکمل ہونے پر سینیٹ اجلاس بدھ کی صبح ساڑھے 10بجے تک ملتوی کردیاگیا۔
اجلاس میں 29فروری کو اسرائیلی فوج کی جانب سے خوراک کیلئے جمع فلسطینیوں کے قتل عام کیخلاف مذمتی قرارداد پیش کی گئی۔
سینیٹر افنان اللہ کاکہنا تھاکہ امداد لینے کیلئے جانے والوں پر فضائی بمباری انتہائی قابل مذمت ہے، مسلمان ممالک کو چاہیے کہ مظلوم فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنے کیلئے اپنی اپنی ایئر فورسز کے ذریعے کم ازکم ائیر سیفٹی ہی فراہم کردیں۔
سینیٹر پلوشہ کاکہنا تھاکہ فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی پر اسلامی ممالک کو شرم آنی چاہئے، اللہ کرے تیل کی دولت سے مالا مال مسلمان ممالک کے تیل کے کنویں خشک ہوجائیں کیونکہ وہ فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دے رہے، اسرائیل کیخلاف عملی اقدامات اٹھانا چاہئیں۔
سینیٹر فیصل جاوید کاکہنا تھاکہ اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے اور ہم خاموش ہیں، پاکستان میں اس ایشو پر مظاہرے ہوئے تو ان پر لاٹھی چارج ہوجاتا ہے، ہمیں اب قراردادوں سے آگے نکلنا ہوگا، ہمیں جاگنے کیلئے اور کتنی لاشیں چاہئیں۔
سینیٹر کامران کاکہنا تھاکہ اسرائیل کی مذمت ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے، ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے، جو لوگ پارٹیوں کی سطح پر حماس سے ملے ہیں ان کیلئے پاکستان کی زمین بھی تنگ کی جارہی ہے، ان کیلئے پاکستان میں بھی مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔
سینیٹر عون عباس کا کہنا تھاکہ امریکی حکام خود کہہ رہے ہیں کہ فلسطینی گھاس کھانے پر مجبور ہیں، ہمیں اگر فلسطینیوں کی مدد کرنی ہے تو آئیے اس ایوان میں امریکہ کی مذمت کی قرارداد منظور کرتے ہیں۔
سینیٹر خالدہ خطیب کاکہنا تھا کہ ہمیں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہوگا۔
سینیٹر تاج کاکہنا تھاکہ پہلے جب جنگ ہوئی تھی تو بھٹو نے اپنی ائیر فورس وہاں بھیجی تھی اور فلسطینیوں کو ائیر کور دیا تھا، لیکن اس کے بعد بھٹو کو پاکستان میں اسرائیلی ایجنٹوں نے قتل کردیا۔
سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ ان قراردادوں سے کچھ نہیں ملے گا، وقت آگیا ہے کہ ائیر فورس کو کہا جائے۔
سینیٹر کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے فلسطین سے محبت کی جدوجہد کو پاکستان میں زندہ رکھا ہوا ہے ، سراج الحق اس معاملے پر خراج تحسین کے مستحق ہیں، کم ازکم ہم یہودیوں کی اشیاء کا پاکستان میں بائیکاٹ کریں۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ میں تجویز کرتا ہوں تمام سینیٹرز اپنی ایک مہینے کی تنخواہ فلسطینیوں کیلئے وقف کریں۔
سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھاکہ اسرائیلی کمپنیاں جو فلسطین جنگ میں مدد کررہی ہیں ان کا بائیکاٹ ہونا چاہئے، عربوں کو شرم کرنی چاہئے، الخدمت فاؤنڈیشن کے سربراہ قاہرہ میں ہیں، شہباز شریف حکومت ہمیں سہولت دے ہم وہاں جاکر ان بچوں کو لانا چاہتے ہیں، ہم تمام سینیٹرز جاکر امریکی سفارتخانے کے سامنے جاکر احتجاج کریں، سیاسی جماعتیں اور پوری عوام امریکی سفارتخانے کے باہر دھرنا دیں، پاکستان ترکی مل کر ایک فلوٹیلا بنائیں اور سامان فلسطین بھیجیں۔
سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ ہمیں کے ایف سی، میکڈونلڈ سمیت اسرائیلی مصنوعات کا سختی سے بائیکاٹ کرنا چاہئے۔
سینیٹر سردار شفیق ترین کاکہنا تھاکہ محمود اچکزئی کے گھر پر چھاپہ مارا گیا ۔ہماری پارٹی ورکر کا شوروم سیل کیا گیا ۔ہم واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ایوان سے علامتی بائیکاٹ کریں گے۔ باقی جماعتوں سے درخواست ہے ہمارا ساتھ دیں ۔واقعہ کی رپورٹ طلب کی جائے ۔
نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو کاکہنا تھاکہ محمود خان اچکزئی کے گھر پر گزشتہ رات8بجے ماراگیا۔ملک میں سیاسی جماعتوں کے اختلافات کو برداشت نہیں کیا جارہا ۔محمود خان اچکزئی آئین کی بالادستی کی بات کرتا ہے۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا دی پاکستان اوپرٹیونیسٹک سکریننگ اینڈ ٹریٹمنٹ آف ہائیپرٹینشن بل 2023 بھی ایوان میں منظور کر لیا گیا ۔
سینیٹر ثانیہ نشتر کاکہنا تھاکہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایمرجنسی کیسز میں مریضوں کے رشتہ داروں سے چیزیں منگوائی جاتی ہیں۔اسی تناظر میں یہ بل پاکستان ایمرجنسی ٹریٹمبٹ کوریج پروگرام بل 2023 تیار کرکے پیش کیا۔ایوان نے بل کو شق وار منظور کر لیا۔
سینیٹر پروفیسر ڈاکِٹر مہر تاج روغانی نے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری پروٹیکشن آف بریسٹ فیڈنگ اینڈ چائلڈ نیوٹریشن بل 2023 پیش کیا جسے ایوان نے منظورکرلیا۔
سینیٹر فوزیہ ارشد کا انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی, کلچر اینڈ ہیلتھ سائنسز بل 2024 ایوان نے منظور کر لیا۔سینیٹر سعدیہ عباسی نے بل کی مخالفت کردی ۔
سینیٹر سعدیہ عباسی کاکہنا تھاکہ جتنی بڑی تعداد میں مختلف تعلیمی اداروں کے بل اس ایوان سے پاس ہوتے رہے جو کہ ٹھیک نہیں۔ پاکستان میں اعلی تعلیم کا بہت بڑا مسئلہ ہے ۔یونیورسٹیاں کھول رہے ہی جن میں ضروری سہولیات نہیں ہیں۔جامعات میں نہ کوئی میرٹ ہے اور یہ لوگ عوام سے لاکھوں روپےلیتے ہیں۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا آفریدی نے کہاکہ ہم اس بل کو قومی اسمبلی کو بھیج دیتے ہیں ساتھ آپ کا اختلافی نوٹ بھی لگا دیں گے۔