انتخابا نشان کی الاٹمنٹ،قانونی غلطیوں کاآغازیہاں سےہواتھا،جسٹس منیب اختر

Jun 04, 2024 | 13:56 PM

ایک نیوز:جسٹس منیب اخترنےکہاکہ انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا۔

تفصیلات کےمطابق سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سےمتعلق کیس کی سماعت  چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نےکی۔
 سنی اتحاد کونسل کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کے دلائل دئیے۔

سنی اتحادکونسل کےوکیل فیصل صدیقی نےدلائل میں کہاکہ کل مجھے کچھ بنیادی قانونی سوالات فرہم کرنے کا کہا گیا تھا۔
عدالت نےکہاکہ پہلے کیس کے مکمل حقائق سامنے رکھ دیں۔
 فیصل صدیقی نےکہاکہ کل جسٹس جمال مندوخیل کا سوال تھا پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا۔سلمان اکرم راجہ نے اسی متعلق درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی۔اس میں کوئی تضاد نہیں کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا، اسی لئے سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے پہلے فہرست جمع نہیں کرائی۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ اپنی یہ بات ایک بار دہرا دیں۔

وکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ جی اس میں کوئی تنازعہ نہیں ہے سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ  آپ تنازعے کی بات کیوں کر رہے ہیں بس کہیں الیکشن نہیں لڑا فل سٹاپ۔

سنی اتحادکونسل کےوکیل نےدلائل میں کہاکہ سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی کے درمیان ایک تفریق ہے۔

چیف جسٹس نےکہاکہ  کیا آئین اس تفریق کو تسلیم کرتا ہے؟

وکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ جی 63 اے آرٹیکل موجود ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ آپ 8 فروری سے پہلے کیا تھے؟ 

وکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ  8 فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے،  آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ہم پارلیمانی جماعت بن گئے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ کل سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کیخلاف بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔

سنی اتحادکونسل کےوکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ اس کا عدالت کے سامنے موجود معاملے سے تعلق نہیں،سنی اتحاد کونسل دونوں سیاسی اور پارلیمنٹری پارٹی ہے،

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےسنی اتحادکونسل کےوکیل فیصل صدیقی سےاستفسارکیاکہ آپ کا پارلیمنٹری سربراہ کون ہے؟

وکیل فصیل صدیقی نےجواب میں کہاکہ میں سربراہ کے حوالے سے ابھی بتا دیتاہوں لیکن عدالت میں یہ بات اہم نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ ریمارکس میں کہاکہ  آپ کو اپنے سربراہ کا نام ہی نہیں معلوم، آپ درخواستگزار ہیں، پارلیمنٹری سربراہ کا کوئی الیکشن ہوتاہے؟ معلوم کیسے ہوتا پارلیمنٹری سربراہ کون ہے؟ 

سنی اتحادکونسل کےوکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ پارلیمنٹری سربراہ کا مقدمہ سے تعلق نہیں اس لیے اس حوالے سے تیاری نہیں کی۔

 میں نے آپ کے سوالات سے پولیٹیکل لفظ ہذف کردیا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز کا فیصل صدیقی سے مکالمہ

جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ  کیا ایسا ممکن ہے کہ سیاسی جماعت ہونے کے بغیر پارلیمانی پارٹی ہو؟  جو بھی پارٹی اسمبلی میں ہوگی تو پارلیمانی پارٹی ہوگی۔

جسٹس جمال مندوخیل ریمارکس میں کہاکہ پارلیمان میں فیصلے پارلیمانی پارٹی کرتی ہے اسکے فیصلے ماننے کے سب پابند ہوتے ہیں، پارلیمانی پارٹی قانونی طور پر پارٹی سربراہ کی بات ماننے کی پابند نہیں ہوتی۔

جسٹس منیب اخترنےریمارکس میں کہاکہ  آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے پارلیمانی پارٹی کا نہیں،  آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے، ارکان حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی، پارلیمانی پارٹی کا ذکر اس موقع پر کرنا غیرمتعلقہ ہے،مناسب ہوگا کہ سیاسی جماعت اور کیس پر ہی فوکس کریں۔کاغذات نامزدگی میں کوئی خود کو پارٹی امیدوار ظاہر کرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا امیدوار تصور ہوگا،آزاد امیدوار وہی ہوگا جو بیان حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں،سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والوں نے خود کو کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی امیدوار ظاہر کیا،کاغذات بطور پی ٹی آئی امیدوار منظور ہوئے اور لوگ منتخب ہوگئے،الیکشن کمیشن کے رولز کیسے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دے سکتے ہیں؟ انتخابی نشان ایک ہو یا نہ ہو وہ الگ بحث ہے لیکن امیدوار پارٹی کے ہی تصور ہونگے۔

جسٹس جمال مندوخیل نےکہاکہ آزاد امیدوار وہ ہوتا ہے جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ ہو،کل سے میں یہی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس میں کہاکہ اس حساب سے تو سنی اتحاد میں پی ٹی آئی کے کامیاب لوگ شامل ہوئے، پارٹی میں تو صرف آزاد امیدوار ہی شامل ہوسکتے ہیں۔

جسٹس عائشہ نےکہاکہ الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر امیدواروں کو آزاد قرار دیا تھا؟ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو خود آزاد تسلیم کرتے ہوئے الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔

جسٹس منیب اخترنےکہاکہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس سارے تنازعہ کی وجہ بنا، سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا۔ہر امیدوار اگر بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی امیدوار ہوتا تو یہ سپریم کورٹ فیصلے کی خلاف ورزی ہوتی۔

سنی اتحادکونسل کےوکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ سلمان اکرم راجہ نے خود کو پی ٹی آئی امیدوار قرار دینے کیلئے رجوع کیا تھا، الیکشن کمیشن نے سلمان اکرم راجہ کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

جسٹس عائشہ ملک نےکہاکہ جو انتخابی نشان سیاسی جماعت کیلئے مختص ہو وہ کسی اور امیدوار کو نہیں مل سکتا۔

جسٹس حسن اظہررضوی نےکہاکہ بلے باز بھی کسی سیاسی جماعت کا نشان تھا جو پی ٹی آئی لینا چاہتی تھی۔بلے باز والی جماعت کیساتھ کیا ہوا تھا؟

وکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ بلے باز والی جماعت کیساتھ انضمام ختم کر دیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ  کیا سپریم کورٹ فیصلے میں لکھا ہے کہ بلے کا نشان کسی اور کو الاٹ نہیں ہوسکتا؟

سنی اتحادکونسل کےوکیل نےکہاکہ عدالتی فیصلے میں ایسا کچھ نہیں لکھا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ  آپ کا بہت شکریہ۔

جسٹس منیب اخترنےکہاکہ کیا سپریم کورٹ کو ایسا کہنے کی ضرورت تھی؟ ج

وکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ سپریم کورٹ کو کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ نشان کسی اور کو نہیں مل سکتا۔

جسٹس محمدعلی مظہرنےریمارکس میں کہاکہ  سپریم کورٹ میں کیس انتخابی نشان کا نہیں انٹرا پارٹی انتخابات کا تھا، عدالت نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر کہا تھا کوئی ایشو ہوا تو رجوع کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس میں کہاکہ ہم نے تو نہیں کہا تھا انٹراپارٹی الیکشن نہ کرائیں،  انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتے سارے مسئلے حل ہو جاتے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ  اصل اسٹیک ہولڈر ووٹر ہے جو ہمارے سامنے نہیں، پی ٹی آئی مسلسل شکایت کر رہی تھی لیول پلئنگ فیلڈ نہیں مل رہی۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ وہ شکایت ہمارے سامنے نہیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ  ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں،ہمیں دیکھنا ہے ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیسے ہو سکتا تھا،ایک جماعت مسلسل شفاف موقع نہ ملنے کا کہہ رہی تھی اور یہ پہلی بار نہیں تھا۔

سنی اتحادکونسل کےوکیل فیصل صدیقی نےدلائل میں کہاکہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ظاہر کیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس میں کہاکہ عدالت نے الیکشن کمیشن کے مطابق نہیں قانون پر چلنا ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے روز ہی عدالت میں چیلنج ہوتے ہیں۔

جسٹس شاہدوحیدنےریمارکس میں کہاکہ  کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا تھا؟ 

وکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا گیا یہ حتمی ہوچکا ہے۔

جسٹس شاہدوحیدنےکہاکہ  فیصلہ حتمی ہوچکا ہے تو بحث کا کیا فائدہ؟

سنی اتحادکونسل کےوکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ سارے مسئلے حل ہوجاتے اگر سپریم کورٹ بلے کے نشان والے فیصلے کی وضاحت کر دیتی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس میں کہاکہ  اگر پی ٹی آئی جماعتی انتخابات کروا لیتی تو آج نشستوں والا مسئلہ ہی نہ ہوتا۔اس عدالت پر ہر چیز کا ملبہ نہ ڈالیں، پی ٹی آئی نے جمہوری حق سے اپنےلوگوں کو محروم رکھا تھا،اس سیاسی جماعت کے الیکشن میں ووٹرز کی خواہش کی عکاسی کہاں ہوئی؟ پارٹی الیکشن ہوتے تو اس کا فائدہ پی ٹی آئی ممبران کو ہی ہوتا وہ الیکشن لڑ لیتے، جمہوریت کی بات کرنی ہے تو پوری کیجئے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ بہت احترام سے اگر سچ سب بولنا شروع کریں تو وہ بہت کڑوا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ میں تو بولتا ہوں۔

جسٹس میاں محمدعلی مظہرنےریمارکس میں کہاکہ بلے والے فیصلے پر نظرثانی زیر التوا ہے،ساری باتیں یہاں کرنی ہیں تو وہاں کیا کریں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ آپ کی دشواری یہ ہے کہ آپ خود کو تحریک انصاف امیدوار ظاہر کرنا چاہتےتھے،الیکشن کمیشن نے آپ کو کہا تحریک انصاف کو بلا نہیں ملا تو آپ کو نہیں دےسکتے، خود کو تب آزاد امیدوار ڈیکلیئر کرتے اور بیٹ مانگ لیتے، قانون نےکہا اپنی پارٹی میں انتخابات کروا لیں، قانون ہم نے نہیں آپ نے بنایا،میں آپ کو مشورہ ہی دےسکتاہوں، پہلے بھی دورانِ سماعت مشورے دیے، آپ نےخود کو تحریک انصاف ظاہر کرنا چاہا، آپ کم سے کم بلے کا نشان مانگتے تو صحیح ، ملنا نہ ملنا سپریم کورٹ بعد میں دیکھتی، آپ مختلف پارٹی سے منسلک ہونا چاہ رہے، آپ اب آزاد امیدوار نہیں،الیکشن کمیشن کے فیصلے روز ہمارے پاس چیلنج ہوتے ہیں، خود کو تحریک انصاف کا امیدوار ظاہر کیا تو بطور آزاد امیدوار نہیں، آپ پارٹی کو ٹھکرا کر ارہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نےریمارکس میں کہاکہ ایوان میں زیادہ آزاد میدوار ہوں اور دو سیاسی جماعتیں ہوں تو کیا ہو گا؟ کیا ساری مخصوص نشستیں دو سیاسی جماعتوں کو جائیں گی؟یاان جماعتوں کو صرف اپنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں گی؟ پہلے اس تنازعے کو حل کریں اس کا کیا جواب ہے؟ 

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ کیا ایوان کو نشستوں کی مقرر کردہ تعداد سے کم رکھا جا سکتا ہے؟

سنی اتحادکونسل کےوکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ ایوان کی مختص تمام نشستیں پوری ہونا لازمی ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ متناسب نمائندگی کے نام پر ڈراماٹائز کرنے کی ضرورت نہیں،مخصوص نشستوں پر تو پارٹی سربراہ کی صوابدید ہے چاہے دوستوں کو نواز دے،مخصوص نشستوں میں ووٹرز کا کوئی کردار نہیں ہوتا یہ پارٹی سربراہ مقرر کرتا ہے۔

جسٹس منیب اخترنےکہاکہ قانون کے مطابق لسٹ سیاسی جماعت نے دینی ہوتی سربراہ نے نہیں۔

سنی اتحادکونسل فیصل صدیقی نےدلائل میں کہاکہ سیاسی جماعت کو مخصوص نشستیں حاصل کی گئی سیٹوں پر ملتی ہیں ووٹوں پر نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ  کیا پارٹی میں شمولیت کیلئے جماعت کا اسمبلی میں ہونا لازمی نہیں؟

وکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ مخصوص نشستیں اسمبلی میں حاصل کی گئی سیٹوں پر الاٹ ہوتی ہیں، قانون میں نشستیں حاصل کرنے کا ذکر ہے جیتنے کا نہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ ریمارکس میں کہاکہ دو سیاسی جماعتیں اپنی جیتی نشستوں کے تناسب سے ہی مخصوص نشستیں لیں گی،باقی نشستوں کا کیا ہو گا بعد میں دیکھا جائے گا،یہ نہیں ہو سکتا کہ ان ہی سیاسی جماعتوں کو اضافی نشستیں بھی بانٹ دیں، ایسا کرنے سے پھر متناسب نمائندگی کا اصول کہاں جائے گا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ  آئین سے بتائیں یہ کہاں ہے؟

سنی اتحادکونسل کےوکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ یہ تو ایسے ہی ہے کہا جائے شوہر شادی شدہ نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےریمار کس میں کہاکہ آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو پی ٹی آئی کا کیس اچھا تھا، پی ٹی آئی جا کر کہہ سکتی تھی یہ ہمارے لوگ ہیں نشستیں ہمیں دو، کس دلیل پر پی ٹی آئی کا یہ موقف مسترد ہوتا، یہ لوگ سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو مخصوص نشستوں کا کیا ہوتا؟ یا تو آپ کہیں ایوان کو مکمل نہیں کرنا تو بات ختم ہے، 336 کا نمبر پورا ہونا تو پھر نشستیں خالی نہیں چھوڑ سکتے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت نشستیں نہ جیتے سب آزاد آئیں تو کیا ہو گا؟ 

سنی اتحادکونسل کےوکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ ایسی صورت میں مخصوص نشستیں کسی کو نہیں ملیں گی۔

جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکہ  اس کا مطلب ہے سیاسی جماعتوں کو اپنی جیتی سیٹوں کے حساب سے ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ اگر پی ٹی آئی والے سنی اتحاد میں شامل نہ ہوتے تو کیا مخصوص نشستیں خالی رہتی؟آپ خود کہ چکے ہیں کہ ایوان میں کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی،سیاسی جماعتوں کو کس تناسب سے نشستیں ملیں گی یہ آئین میں کہاں لکھا ہے؟

جسٹس منصورعلی شاہ نےکہاکہ حاصل کی گئی جنرل نشستوں سے ہی سیاسی جماعت کا تناسب نکلے گا۔

وکیل فیصل صدیقی نےکہاکہ  اس وقت قومی اسمبلی میں سات ارکان آزاد ہیں، سات سیٹوں پر مخصوص نشست نہیں بنتی۔

عدالت نےسماعت 24 جون تک ملتوی کر دی ۔

مزیدخبریں