ایک نیوز: سینیٹ کی پاور کمیٹی کے اجلاس میں ملک میں جاری غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی گونج رہی۔
سینیٹر حاجی ہدایت اللہ نے کہا کہ دیہی علاقوں میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے۔ شہری علاقوں میں آٹھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے۔ لوگ بجلی کے بغیر مشتعل ہو رہے ہیں۔ ملک بھر میں احتجاج ہو رہا ہے۔ بجلی کے بغیر پانی کے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔
سینیٹر فدا محمد نے الزام عائد کیا کہ مرمت کے نام پر پندرہ پندرہ دن ٹرانسفارمر ٹھیک نہیں ہو رہے۔ ملک میں سٹوروں میں کہیں پر بھی تاریں اور ٹرانسفارمرز دستیاب نہیں ہیں۔
داسو ہائیڈرو پاور اسٹیشن سے اسلام تک 765 کے وی ڈبل سرکٹ ٹرانسمیشن لائن تعمیر کرنے کا منصوبہ کمیٹی میں زیربحث رہا۔ پاور ڈویژن و این ٹی ڈی سی نے ایک بار پھر 80 کروڑ ڈالر کے منصوبے کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کردیا۔
جوائنٹ سیکرٹری پاور نے مؤقف اپنایا کہ منصوبہ عالمی بنک کے اشتراک سے شروع کیا گیا۔ این ٹی ڈی سی کے مؤقف کی تائید کرتا ہوں۔ عالمی بنک سے معاہدے کے سبب منصوبے کے ڈاکیومنٹس شیئر نہیں کیے جا سکتے۔
حکام نے واضح کیا کہ اگر ایسا کیا تو داسو ڈیم منصوبے کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عالمی بنک سے اقتصادی امور ڈویژن کا معاہدہ ہوا ہے۔ اس پر سینیٹر بہرا مند خان تنگی نے کہا کہ ڈاکیومنٹس فراہم نہ کرنے کا قانونی جواز کیا ہے۔ این ٹی ڈی سی نے بتایا کہ ڈاکیومنٹس شیئر کرنا معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی۔
سینیٹر سیف اللہ خان نیازی نے کہا کہ اگر شفافیت ملحوظ نہیں رکھی گئی تو معاہدہ کیوں کیا گیا؟ قرض کا پیسہ واپس عوام نے کرنا ہے۔ این ٹی ڈی سی نے بتایا کہ معاہدہ جی ٹو جی کے تحت کیا گیا۔ ہمیں معاہدہ کرنے کے بعد اس میں شامل کیا گیا۔
سینیٹر فدا حسین نے کہا کہ اگر پیسہ عوام کا ہے تو ڈاکیومنٹس بھی عوام کے ہونے چاہئیں۔ سندھ میں بجلی کے بڑے آلات چوری روز کا معمول بن چکا ہے۔ ام ڈی این ٹی ڈی نے کہا کہ جون جولائی میں بارشوں کی وجہ سے مسائل ہوتے ہیں، شکار پور میں 160 ایم وی کا ٹرانسفارمر اور ٹاور گرے، سندھ میں سٹرپس چوری ہوتی ہے، وہاں پر لوگ بجلی کے الات چوری ہوتے ہیں، ابھی پولیس، ایم آئی اور اپنی سیکیورٹی کے ذریعے مسائل پر قابو پا رہے ہیں۔