ایک نیوز : پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں 620 افراد کو صفر شرح سود پر 3 ارب ڈالرز قرضہ دینے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ سے 24 گھنٹوں میں متعلقہ افراد کی فہرست طلب کر لی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نور عالم خان نے بتایا کہ کمیٹی نے وزارت خزانہ سے قرض کنندگان کی تفصیلات طلب کی تھیں، تاہم اسٹیٹ بینک کے جوابی خط میں کوئی کام کی بات نہیں ہے۔ قرض لینے والے کسی بھی فرد کا نام نہیں بتایا گیا ہے۔
نور عالم خان نے کہا کہ کہا کہ پی ٹی آئی دور میں 10 سال کے لیے مخصوص لوگوں کو نوازا گیا اور یہ اسکیم اسٹیٹ بینک نے نہیں بلکہ وزارت خزانہ نے دی تھی۔ بعد ازاں پی اے سی نے اس معاملے پر سیکریٹری فنانس کو کل طلب کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ سے 24 گھنٹوں میں متعلقہ افراد کی فہرست طلب کر لی ہے۔
اجلاس کے دوران رکن کمیٹی ملک مختار نے کہا کہ اس قرض کا پرفارمینس آڈٹ کروانا چاہیے جب کہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ہمارے دور حکومت میں کورونا کے بعد برآمدات کو بڑھانے کے لیے یہ قرض دیا گیا تھا جسے غلط تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
’قرض کے بعد ہماری برآمدات 4 ارب ڈالرز تک گئی تھیں، آپ فہرست ضرور منگوائیں مگر ساتھ ہی قرض کے بعد معیشت کو ہوئے فائدے کے اعداد و شمار بھی زیر بحث لائیں۔‘
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین کمیٹی نور عالم خان اور رکن کمیٹی برجیس طاہر کی سینیٹر محسن عزیز کے ساتھ گرما گرمی بھی ہوئی، سینیٹر محسن عزیز کی گفتگو کے دوران چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے گفتگو شروع کی اور کہا کہ میں عوامی نمائندہ ہوں اس کا ہر صورت آڈٹ کراؤں گا۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ آپ مجھے بات کرنے کی اجازت دیں اس دوران سینیٹر برجیس طاہر اور محسن عزیز کے درمیان بھی تلخ کلامی شروع ہو گئی۔ برجیس طاہر کا کہنا تھا جب چیئرمین بات کر رہے ہوں تو ارکان کو خاموش ہو جانا چاہیے۔ جس پر سینیٹر محسن عزیز بولے؛ آپ مجھے تمیز نہ سکھائیں میں باعزت خاندان سے ہوں۔ بعد ازاں چیئرمین کمیٹی نے دونوں ارکان کے مائیک بند کروا دیے۔