تاحیات نااہلی کا فیصلہ اسلامی اصولوں کیخلاف ہے، چیف جسٹس

تاحیات نااہلی کا فیصلہ اسلامی اصولوں کیخلاف ہے، چیف جسٹس
کیپشن: تاحیات نااہلی کیس:سپریم کورٹ کا 7 رکنی لارجر بنچ آج سماعت کرے گا

ایک نیوز:سپریم کورٹ میں تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہو گا۔تاحیات نااہلی کا فیصلہ اسلامی اصولوں کے خلاف ہے ۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے  آرٹیکل 62 وین ایف کے تحت تاحیات نااہلی پر سماعت کی ۔7 رکنی  بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں، کیس کی سماعت کل  نو بجے تک ملتوی کردی گئی ۔

 کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے،تاحیات نااہلی کا فیصلہ اعمال نہیں انسان کو برا کہہ رہا ہے،تاحیات نااہلی کا فیصلہ اسلامی اصولوں کیخلاف ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہوگا کہ کس نے توبہ کی ہے کس نے نہیں،فیصل صدیقی نے استدعا کی کہ عدالت آئندہ انتخابات تک ہی نااہلی کو محدود رکھےجس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آئندہ انتخابات تک ڈیکلریشن ازخود کیسے ختم ہوجائے گا؟کاغذات نامزدگی مسترد ہو جائیں تو ڈیکلریشن لیکر امیدوار کہاں جائے گا؟ دسمبر کے وسط میں سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت سے متعلق تمام مقدمات ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا تھا۔سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالتی معاونین سب آگئے ہیں؟

عدالتی معاون عزیز بنڈاری نے جواب دیا کہ ریما عمر پیش نہیں ہوسکیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے تین عدالتی معاونین مقرر کیے تھے، ریما عمر نے اپنا تحریری جواب بھجوایا ہے۔

اس کے بعد سجاد الحسن کے وکیل خرم رضا روسٹرم پر آگئے،گزشتہ سماعت پر خرم رضا نے تاحیات نااہلی کے حق میں اپنی رائے دی تھی۔ 

خرم رضا نے عدالتی اختیار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ اپیلیں کس قانون کے تحت چل رہی ہیں، کیا آرٹیکل 187 کے تحت اپیلیں ایک ساتھ سماعت کیلئے مقرر کی گئیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنی درخواست تک محدود رہیں۔

خرم رضا نے کہا کہ سپریم کورٹ یہ کیس کس دائرہ اختیار پر سن رہی ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کورٹ آف لاء کی بات کرتا ہے،آرٹیکل 199 ہائیکورٹ کو اور آرٹیکل 184/3 سپریم کورٹ کو ایک اختیار دیتا ہے۔سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62 ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیاردیتا ہے؟

خرم رضا نے کہا کہ ٹریبونل سے آنے والے فیصلے کے خلاف کیس سپریم کورٹ اپیل کے دائرہ اختیار میں سنتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 62 ون ایف ٹربیونل کو بھی تاحیات نااہلی کا اختیار دیتا ہے؟ یا صرف تاحیات نااہلی کا یہ اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے؟

 وکیل خرم رضا نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی ڈکلئیریشن دینے کا اختیار الیکشن ٹربیونل کا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف میں کورٹ آف لاء درج ہے سپریم کورٹ نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بہتر ہوگا ہمیں الیکشن ٹربیونل کے اختیارات کی طرف نہ لے کر جائیں۔

وکیل خرم رضا نے عوامی نمائندگی ایکٹ کا حوالہ دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنی ہی معروضات کی نفی کرنے والی بات کر رہے ہیں،جب 62 ون ایف کے تحت کوئی ٹریبونل نہیں کرتا تو سپریم کورٹ کیسے کر سکتی ہے؟ کیا سپریم کورٹ الیکشن معاملے میں اپیلٹ فورم کے طور پر کام نہیں کرتی؟اضافی اختیار تاحیات نااہلی والا یہ کہاں لکھا ہے؟

خرم رضا نے کہا کہ سپریم کورٹ ڈیکلیریشن دے سکتی ہے، جن کیسز میں شواہد ریکارڈ ہوئے ہوں وہاں سپریم کورٹ ڈیکلیریشن دے سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر تو آپ سمیع اللہ بلوچ کیس کی حمایت نہیں کر رہے۔

خرم رضا نے کہا کہ میں ایک حد تک ہی اس کیس کی حمایت کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئینی عدالت اور سول کورٹ میں فرق کو نظر انداز نہیں کر سکتے،سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ آئینی عدالتیں ہیں جہاں آئینی درخواستیں دائر ہوتی ہیں،الیکشن کمیشن قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتا ہے،اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہو گا،ایک الیکشن میں کوئی گریجویٹ نہ ہونے پر نااہل ہوا اور اگلی بار گریجویشن کی شرط ہی نہیں تو اگلی بار نااہل کیسے ہو گا؟

چیف جسٹس نے مزیدریمارکس دیئے کہ ایک شخص دیانتداری سے کہتا ہے وہ میٹرک پاس ہے اس پر وہ اگلے الیکشن میں بھی نااہل کیسے ہے؟آپ نے جو تفریق بتائی اس سے متفق نہیں،ایسے تو کوئی غیر ملکی بھی الیکشن لڑ کر منتخب ہو سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ آرٹیکل 62 اور 63 کی پہلی پہلی سطر پڑھیں۔

خرم رضا نے کہا کہ عدالت نے صرف 62ون ایف کی تشریح کرنی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہتے ہیں ہم 62 اور 63 کو ملا کر نہیں تشریح کر سکتے۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ شروع میں تو مسلمان صرف دو چار ہی تھے،اسلام میں توبہ کا تصور موجود ہے،اسلامی احکامات کے خلاف تو کوئی استدعا یا دلیل نہیں سنیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ  نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے آئین میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی،الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے صرف قانون کو واضح کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک الیکشن میں کوئی گریجویٹ نہ ہونے پر نااہل ہوا اور اگلی بار گریجویشن کی شرط ہی نہیں تو اگلی بار نااہل کیسے ہو گا؟جنرل ایوب نے آکرسب کو باہر پھینک دیا اور اپنے قوانین لائے،منافق کافر سے زیادہ خطرناک ہے،آمروں نے صادق اور امین کی شرط اپنے لیےکیوں نہیں ڈالی،پارلیمنٹرینز نےآئین بنایا، ڈکٹیٹروں نے آکر سیاست دانوں اور آئین کو باہر پھینک دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی ڈیکلیریشن کسی نہ کسی قانون کی بنیاد پر دیا جاتا ہے،وہ قانون اب کہتا ہے یہ مدت 5 سال ہو گی۔

وکیل خرم رضا نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی بحث میں تسلیم کیا گیا 62 ون ایف مدت پر خاموش ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نااہلی کی یہ شقیں ایک ڈکٹیٹر نے شامل کیں درست یا غلط؟ یا تو ہم پھر ڈکٹیٹر شپ کو ٹھیک مان لیں،ایک ڈکٹیٹر آیا، دوسرا آیا، تیسرا آیا سب کو اٹھا کر پھینک دیا،منافق کافر سے بھی زیادہ برا ہوتا ہے، کافر کو پتہ نہیں ہوتا، منافق سب جان کر کررہا ہوتاہے،پارلیمنٹ نے ایک قانون کتاب بنا کر ہمیں دی،ایک شخص ٹہلتا ہوا آتا ہے کہتاہے نہیں یہ سب ختم،آمروں نے صادق و امین والی شرط اپنے لئے کیوں نہ ڈالی۔

وکیل خرم رضا نے آئینی ترامیم کا حوالہ دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رہنے دیں، ترامیم بھی گن پوائنٹ پر آئیں،کچھ لوگوں نے کہا چلو آدھی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے،آئین کا تقدس تب ہو گا جب اسے ہم مانیں گے،یا تو ہم کہہ لیتے ہیں کہ بندوق کا تقدس مانیں گے،یہاں بیٹھے پانچ ججز کی دانش ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں سے زیادہ کیسے ہو سکتی ہے؟ جب تک کوئی جھوٹا ثابت نہیں ہوتا ہم کیوں فرض کریں وہ جھوٹا ہے،آپ اراکین اسمبلی کو جتنی بھی حقارت سے دیکھیں وہ ہمارے نمائندے ہیں،آپ ڈکٹیٹرز کی دانش اراکین اسمبلی کی دانش پر فوقیت نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ارکان پارلیمان کی تاحیات نااہلی سے متعلق مقدمے کی سماعت میں ریمارکس دیے کہ فوجی آمر لوگوں کو انتخابی دوڑ سے باہر رکھنے کے لیے اپنی مرضی کے اقدامات اٹھاتے ہیں،ایک آمر آ کر کہتا ہے کہ ڈگری کی شرط لازمی ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ صادق اور امین ہونا ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے درخواست گزار سجادالحسن کے وکیل خرم رضا سے کہا کہ ’فوجی آمر کے سامنے آپ لوگ کوئی بات ہی نہیں کرتے۔‘ریپ کرنے والا انتخاب لڑ سکتا ہے مگر ایک سول نوعیت کے مقدمے کا سامنے کرنے والا سیاست سے تاحیات نااہل ہو جاتا ہے۔‘

چیف جسٹس نے وکیل خرم رضا سے کہا اب آپ دلائل میں آگے نہیں بڑھ رہے ہیں ’تھوڑی رفتار بڑھا دیں، ہم اس کیس کو بغیر حل کے نہیں چھوڑنا چاہتے۔‘

ایک اور وکیل نے جب اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات تو سچ ہے کہ فوجی آمروں نے آئین میں ترامیم متعارف کروائیں مگر اس کے بعد منتخب پارلیمان بھی ان ترامیم کے خلاف نہیں گئیں،لہٰذا اس کا مورد الزام صرف آمروں کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ ’یہ بات آپ کی درست ہے۔‘واضح کیا تھا کہ انتخابات قریب ہیں ریٹرننگ افسران کا کام متاثر ہوگا،کوئی ریٹرننگ افسر عدالتی فیصلہ مانے گا اور کوئی الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم،ریٹرننگ افسران وکیل نہیں بیوروکریٹ ہیں،کوشش ہے کہ جلد فیصلہ کیا جائے تاکہ ریٹرننگ افسران کنفیوز نہ ہوں۔
 جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا جعلی ڈگری پر نااہلی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہوگی؟

وکیل محمد کاشف نے کہا کہ جعلی ڈگری پر فوجداری کارروائی ہونی چاہیے نااہلی نہیں۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ سیاست دان عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں،آمروں اورسیاست دانوں کوایک ساتھ نہیں پرکھا جاسکتا،آمرآئین توڑ کر حکومت میں آتا ہے منتخب ہوکرنہیں آتا،سیاست دانوں کوایسے برا نہ بولیں وہ عوامی رائے سےمنتخب ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ باقی سارا آئین انگریزی میں ہے، امین کیلئے انہیں پتہ نہیں تھا انگریزی کا لفظ کیا ہے؟کیا ضیاالحق یا ان کے وزیر قانون کو لفظ امین کا مطلب پتہ نہیں تھا؟یہ چیزیں صرف کنفیوز کرنے کیلئے ڈالی گئیں یا کوئی اور وجہ بھی تھی؟

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ صادق اور امین کی تعریف کیا ہوگی؟صادق وامین کا مطلب وہی ہے جو اسلام میں ہے۔

 جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کون طے کرے گا کس کا کردار اچھا ہے یا نہیں؟

وکیل نے جواب دیا کہ اس بات کا تعین تو خدا ہی کرسکتا ہے۔صادق و امین کا اسلامی مطلب دیکھیں گے تو پھر یہ غیرمسلم پر نہیں لگے گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ غیر مسلم بھی صادق و امین ہو سکتے ہیں۔وکیل خرم رضا سمیت جو تاحیات نااہلی کی حمایت کر رہےہیں وہ اپنے نکات بتا دیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ 3وکلا نے تاحیات نااہلی کی حمایت کی تھی۔

چیف جسٹس نے عثمان کریم اور اصغر سبزواری سے استفسار کیا کہ آپ خرم رضا کے دلائل اپنا رہے ہیں؟۔

اصغر سبزواری نے کہاکہ تاحیات نااہلی اگر ڈکٹیٹر نے شامل کی تو اس کے بعد منتخب حکومتیں بھی آئیں،سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی ’’جج میڈ لاء‘‘ہے،جہانگیر ترین جیسے کیسز کی انکوائری ہونی چاہئے جہاں بغیر ٹرائل تاحیات نااہل کیا گیا۔

جسٹس مسرت ہلالی نےریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62اور 63الگ الگ لانے کی ضرورت کیا تھی؟ایک آرٹیکل کہتا ہے کون اہل ہے ، دوسرا  کہتا ہے کون نااہل،دونوں باتوں میں فرق کیا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کوئی دوسری شہریت لیتا ہے تو وہ 62میں نہیں 63میں پھنسے گا۔

وکیل عثمان کریم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2013 کے اللہ دینو بھائیو کیس کے فیصلے میں 62 ون ایف کی نااہلی دی،سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی متعارف کرائی،سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے 2020 میں اللہ دینو بھائیو نظر ثانی کیس میں نااہلی کالعدم قرار دے دی۔جسٹس بندیال نے 2020 کے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے فیصل واوڈا کیس کا فیصلہ دیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے مطابق سابق چیف جسٹس نے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر اپنے ہی موقف کی نفی کی؟۔

عثمان کریم نے کہا کہ سپریم کورٹ کا سمیع اللہ بلوچ کیس کافیصلہ اس لئے چلے گا کیونکہ 5رکنی بنچ کا ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل عثمان کریم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ اچھی تیاری کرکے آئے ہیں،مزید معاونت کریں،الیکشن سر پر ہیں،ہم نے یہ مسئلہ حل کرنا ہے۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پارلیمنٹ اٹھارہویں ترمیم کرنے بیٹھی تو 62ون ایف کو نہیں چھیڑا تھا،پارلیمنٹ کو علم بھی تھا کہ 62 ون ایف کی ایک تشریح آچکی ہے،سمیع اللہ بلوچ کیس کے کچھ پہلو ضرور دوبارہ جائزے کے متقاضی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنا پوائنٹ بتائیں۔

عزیربھنڈاری نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس نااہلی کے مکینزم کی بات نہیں کر رہا،18ویں ترمیم کے بعد بھی کئی آئینی ترامیم ہوئیں،کسی بھی آئینی ترمیم میں آرٹیکل 62ون ایف کی بات نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ایک فارم میں تبدیلی پر پورا پاکستان بند کر دیا گیا تھا،شاید اس لئے اس معاملے کو چھوڑ دیا گیا ہو،ریاست نے سوچا ہو گا ان لوگوں سے کون ڈیل کرے گا۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ یہ غالب جیسی بات ہے کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔سمیع اللہ بلوچ کیس فیصلے کوختم کئے بغیر راستہ نکالا جاسکتا ہے،پرسوں اس عدالت میں کہا گیا 62ون ایف 63 سے ملا کر پڑھا جائے،یہ نکتہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں تفصیل سے اٹینڈ کیا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنے اصل نکتے پر آجائیں ایسا نہ ہو آج لاہور نہ جا سکیں۔

عزیزبھنڈاری نے کہا کہ میں 20 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں،کاغذات نامزدگی ریٹرننگ افسر کے پاس جاتے ہیں جو نااہلی کا ڈیکلریشن نہیں دے سکتا،الیکشن ٹربیونل تسلیم شدہ حقائق کی بنیاد پر نااہلی کا ڈیکلریشن دے سکتا ہے،ڈیکلریشن کون دے سکتا ہے یہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں نہیں لکھا ہوا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ تاحیات نااہلی کیس میں توسب کچھ سپریم کورٹ نے ہی کیا،کوئی عدالت کسی کےسچے اور راست گو ہونے کا ڈیکلریشن کیسے دے سکتی ہے؟ایمانداری،امین اور فضول خرچ نہ ہونے کا تعین عدالتیں کیسے کر سکتی ہیں؟۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے سپریم کورٹ ایسا ڈیکلیریشن دے سکتا ہے،ایک فوجداری یا سول کیس میں ایک گواہ جھوٹ بولتا ہے،کیا اس بنیاد پر تاحیات نااہلی ہو سکتی ہے؟

 عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے کہاکہ آرٹیکل 10اے شفاف ٹرائل کی بات کرتا ہے،ریٹرننگ افسر ڈیکلیریشن نہیں دے سکتا وہ کورٹ آف لاء نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنے ہی دلائل کی نفی کررہے ہیں،ایک جج کہے گا نااہلی ہوتی ہے دوسرا کہے گا نااہلی نہیں ہوتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اصل سوال یہ ہے ڈیکلیریشن کہاں سے آئے گا؟۔

 چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ جعلسازی پر ڈیکلیریشن کون دے گا؟ کچھ الفاظ ایسے ہیں جو محض کاغذ کے ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں عدالتی معاون ہوں،کراس سوال نہ کریں۔

ججز مسکراتے رہے۔

عزیر بھنڈاری نے کہا اگر آپ کہیں تو میں اپنے سوالات واپس لے لیتا ہوں،تسلیم شدہ حقائق پر سپریم کورٹ بھی ڈیکلریشن دے سکتی ہے،سول کورٹ بھی ڈیکلریشن دے سکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے چیزوں کو آسان بنانا ہےمشکل نہیں بنانا،ہم نے آر او کیلئے آسانی لانی ہےمشکل نہیں لانی،ہمیں صرف بتائیں سزا تاحیات ہوگی یا پانچ سال؟،آپ نے تو ریٹرننگ افسر کو کورٹ آف لا بنا دیا۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ڈیکلیریشن کووارنٹو میں بھی دیا جا سکتا ہے،خواجہ آصف کیس میں ایسا کووارنٹو دیا گیا،ہائیکورٹ خود کووارنٹو میں خود بھی ڈیکلیریشن دے سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہائیکورٹ گواہوں کے بیانات ریکارڈ کر سکتی ہے؟ 

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی بات سمجھ آگئی ہے اگلا پوائنٹ بتائیں۔جھوٹ بولنے والا تاحیات نااہل اور بغاوت کرنے والا پانچ سال نااہل کیسے ہوسکتا؟ اس نکتے کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا،پارلیمنٹ نے یہ ترامیم مرضی سے نہیں کیں، ان پر تھوپی گئی ہیں.

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کسی نے تھوپی نہیں ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ پورے پاکستان کو یرغمال بنانے والے دوبارہ الیکشن لڑ رہے ہیں،آئین میں یہ سب چیزیں کہاں سے آئیں یہ کوئی نہیں بتا رہا،کوئی وکیل بھی ڈکٹیٹر کیخلاف بات نہیں کرتا، ڈکٹیٹر کہتا ہے یہ ترامیم کرو نہیں تو میں 25سال بیٹھا رہوں گا،آمر کو ہٹانے کیلئے پارلیمان اس کی بات مان لیتی ہے،ہم ہوا میں باتیں کر رہے ہیں،ایک سوال کا جواب دیں،ایک ڈیکلیریشن آنے کے بعد کوئی دوبارہ عدالت جا سکتا ہے؟ کیاکوئی جا کر کہہ سکتا ہے اب توبہ کر لی ڈیکلیئر کریں میں بہت اچھا مسلمان ہوں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایسا کوئی فیصلہ موجود ہے جس میں ایسا فیصلہ دیا گیا ہو؟

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں نے فیصل واوڈا کیس میں ایسا  دیکھا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کسی کو سب سے زیادہ ڈسکشن دینا بہت خطرناک ہوتا ہے،میں توقع رکھتا تھا کہ آپ آئینی معاونت کریں گے،یہ نہیں ہو سکتا فیصل واوڈا ندامت دکھائے تو معاملہ عدالتی موڈ پر چلا جائے،عدالت کا موڈ ہو تو تاحیات نااہلی کرے موڈہو تو چھوڑ دے ایسا نہیں ہوتا،کسی وکیل نے ڈکٹیٹر کیخلاف کبھی بات نہیں کی۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں نے جتنا ڈکٹیٹر پر تنقید کی اتنی 18ویں ترمیم پر کی،ارکان پارلیمنٹ بیچاروں پر تو تنقید آسان ہے، میں بندوق والوں سے نہیں لڑ سکتا جنہیں ووٹ دیا ان سے ہی پوچھ سکتا ہوں،میں کہہ رہا ہوں ڈیکلیریشن سوٹ فائل کرنے سے آسکتا ہے،میری یہ رائے ہے اسے آپ نے ماننا یا نہ ماننا ہے۔

عزیر بھنڈاری نے جسٹس منصور علی شاہ کے پرانے فیصلے کا حوالہ دیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ آج میرے پیچھے ہی کیوں پڑے ہیں؟

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں اپنی غلطی پر معافی مانگنے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے،آرٹیکل 17 ہر شہری کا ایک بنیادی حق ہے، اگر بنیادی حق اور آئین کی دوسری شق میں تضاد ہو تو کس کو ترجیح دی جائے گی؟۔

عذیر بھنڈاری نے کہا کہ میری نظر میں بنیادی حقوق پر مبنی آئینی شق کو ترجیح دی جائے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فرض کریں تاحیات نااہلی کا فیصلہ نہ ہوتا تو کیا آرٹیکل 17 کی بنیاد پر ہم فیصلہ کر سکتے ہیں؟۔

عذیر بھنڈاری  نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں آرٹیکل 17  پر بحث کی گئی ہے،پارلیمان الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے نااہلی کی مدت کم کرنے کی مجاز نہیں تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شکر ہے آرٹیکل 62 ون ایف کی اہلیت کا معیار ججز کیلئے نہیں ہے،اگر ججز کیلئے ایسا معیار ہوتا تو کوئی بھی جج نہ بن سکتا،میں تو ڈر گیا ہوں شکر ہے پارلیمان نے یہ معیار ہمارے لئے مقرر نہیں کیا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ  کیا نیب کے علاوہ کسی قانون میں سزا کیسے نااہلی ہوتی ہے؟۔

عذیر بھنڈاری نے کہا کہ نیب کے علاوہ کسی قانون میں سزا کےساتھ نااہلی کا علم نہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ کیا ڈیکلریشن دینے والے جج کیلئے بھی صادق اور امین ہونے کا معیار مقرر ہے؟ ۔

عذیر بھنڈاری نے ہنستے ہوئے جواب  دیا اور کہا کہ جس کیخلاف ڈیکلریشن دیا جا رہا وہ جج سے پوچھ سکتا ہے۔

چیف جسٹس  پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم دونوں ختم ہوگئے تو نااہلی کیسے ہوگی؟۔

عذیر بھنڈاری نے کہا کہ نااہل کرنے کیلئے عدالت کو آئین کے دوسرے آرٹیکلز کا سہارا لینا ہوگا۔

عدالتی معاون عذیر بھنڈاری نے دلائل مکمل کر لیے۔

چیف جسٹس  پاکستان نےریمارکس دیئے کہ عدالت انتخابات کیلئے کسی کے حقوق متاثر نہیں کرنا چاہتی،سماعت میں وقفہ کرینگے تاکہ ہمارے خلاف کوئی ڈیکلریشن نہ آ جائے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کی موجودگی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم بے سود ہے،عدالتی فیصلے کا اثر کسی سادہ قانون سازی سے ختم نہیں کیا جا سکتا،تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لئے بغیر پانچ سال نااہلی کا قانون غیرآئینی ہوگا،سپریم کورٹ کو تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لینا ہوگا،سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی عدالتی ڈیکلریشن کی بنیاد پر دی تھی،لازمی نہیں کہ عدالتی ڈیکلریشن ہمیشہ کیلئے ہو،ڈیکلریشن ختم ہوتے ہی نااہلی کی معیار بھی ختم ہوسکتی ہے۔

فیصل صدیقی نےمزید  کہا کہ چیزوں کو آئینی تناظر میں دیکھنا چاہیے،سب کچھ آئین کی حدود میں ہونا چاہیے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم کیسے آئینی حدود میں معاملات کو طے کریں اس کا حل کیا نکالا جائے؟

فیصل صدیقی نے کہا کہ اس معاملے کو آئندہ پارلیمنٹ پر چھوڑا جائے،سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ نااہلی کی مدت کا تعین کر رہا ہے،عدالت نے دیکھنا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کرنے کی نیت سے کی گئی یا نہیں،اگر الیکشن ایکٹ کی ترمیم برقرار رکھنی ہے تو سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم ہونا ہو گا۔نااہلی کی مدت، طریقہ کار اور پروسجر کا تعین ہونا ضروری تھا،

چیف جسٹس نے کہاکہ اگر پارلیمنٹ نے پہلے ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ ختم کر دیا تو عدالت کیوں اپنے فیصلے کو ختم کرے؟فیصل صدیقی نے کہا پارلیمنٹ سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ کی آئینی تشریح ختم نہیں کر سکتی،اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلے چلے گا یا الیکشن ایکٹ،پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت کم سے کم پانچ سال کرتے وقت الیکشن ایکٹ ترمیم کا اطلاق اٹھارویں ترمیم سے کیا۔

چیف جسٹس نےکہا کہ آئین میں خلا کی صورت میں یہی کیوں سمجھا جاتا ہے کہ اس کو پر کرنے کے لیے عدالتی تشریح ہی ہو گی؟ آئین جن چیزوں پر خاموش ہے اس کا مقصد قانون سازی کا راستہ کھلا رکھنا بھی ہو سکتا ہے نا کہ عدالتی تشریح، آئین میں تو قتل کی سزا بھی درج نہیں اس لیے تعزیرات پاکستان لایا گیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کے وکلاء عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے جبکہ آج کی سماعت کیلئے عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کر رکھے ہیں۔