پی پی این : پہلی مرتبہ سینکڑوں پاکستانی ہندو اپنے متوفی رشتہ داروں کی استھیوں(راکھ) کو بھارت میں متبرک سمجھے جانے والے دریائے گنگا میں خود سپرد آب کر سکیں گے۔
یہ پہلا موقع ہوگا جب پاکستان کے ہندو اپنے 426 متوفی رشتہ داروں کی استھیاں (راکھ اور ہڈیاں) بھارت کے ہندو مذہبی شہر ہری دوار میں دریائے گنگا میں خود سپرد آب کریں گے۔ ان متوفی ہندووں کی آخری رسومات پاکستان میں ادا کی جا چکی ہیں۔ ان کی ہڈیاں اور راکھ ہندو مندوں اور شمشان گھاٹوں میں 'کلش' (لوٹے) میں رکھی ہوئی ہیں۔
سن 2011 سے سن 2016 کے درمیان پاکستان سے 295 ہندووں کی استھیاں واہگہ بارڈر کے راستے بھارت پہنچی تھیں۔ پاکستان میں بیشتر ہندووں نے اپنے عزیزوں کی استھیاں اس امید میں مختلف مندروں میں محفوظ رکھی ہیں کہ ایک دن انہیں بھارت جا کر دریائے گنگا میں بہانے کا موقع ضرور ملے گا۔
ہندومت کے مطابق اگر ان استھیوں کو ہردوار میں دریائے گنگا میں سپرد آب کردیا جائے تو ان کی روحیں 'سورگ' (جنت) میں پہنچ جائیں گی اور انہیں 'موکش' (بار بار جنم لینے کے چکر سے نجات) بھی مل جائے گی۔
اب تک کسی پاکستانی ہندو یاتری کو بھارت میں کسی اسپانسر کے بغیر داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ اور کوئی پاکستانی ہندو اپنے متوفی رشتہ دار کی استھیاں دریائے گنگا میں بہانے کے لیے اسی وقت لاسکتا تھا جب بھارت میں رہنے والا اس کا کوئی رشتہ یا جان پہچان والا شخص اس کی ذمہ داری لیتا تھا۔ چونکہ بیشتر پاکستانی ہندووں کے بھارت میں کوئی رشتہ دار نہیں اس لیے متوفی شخص کی آخری خواہش پوری ہونا مشکل ہوتی تھی۔
بھارت کی مودی حکومت نے اسپانسر پالیسی میں ترمیم کی ہے جس کے تحت اب پاکستانی ہندو متوفی کا کوئی بھی رشتہ دار 10 دن کے ویزا پر بھارت آ سکے گا اور استھیاں دریائے گنگا میں بہا سکے گا۔ اس طرح پاکستانی ہندوؤں کی ایک بڑی اور آخری خواہش پوری ہو رہی ہے۔