ویب ڈیسک: امریکا نے عراق اور شام میں 85 مقامات پر فضائی حملے کیے جس میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 40 ہوگئی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا نے اردن میں اپنے 3 فوجیوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے عراق اور شام میں ایران کی پاسداران انقلاب اور ان کی حمایتی فورسز کے ٹھکانوں پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے بمبار طیاروں نے حملے کیے۔
عراق کی ریاستی سیکورٹی فورس نے امریکا کے بی ون بمبار طیارں کی شدید بمباری میں پاسداران انقلاب کے 16 جنگجوؤں کی ہلاکت کی تصدیق کی جب کہ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ شام میں امریکی حملوں میں 23 افراد ہلاک ہوئے۔
امریکا نے عراق اور شام میں پاسداران انقلاب کے اسلحہ خانوں کو بھی تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ امریکا کے بمبار طیاروں نے ان حملوں کے لیے کہاں سے اُڑان بھری تھی اور کون سی بیس استعمال کی تھی۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے حملوں کے بعد کہا کہ یہ ہمارے جوابی ردعمل کا آغاز ہے۔ صدر جوبائیڈن نے پاسداران انقلاب اور اس کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف اضافی کارروائی کی ہدایت کی ہے۔
وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے مزید کہا کہ ہم ایران، مشرق وسطیٰ یا کسی اور سے جنگ نہیں چاہتے لیکن امریکی افواج پر حملوں کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔
دوسری جانب عراق نے امریکی ناظم الامور کو طلب کیا اور حملے کو اپنی سلامتی کے خلاف اور در اندازی قرار دیتے ہوئے باضابطہ احتجاج کیا جب کہ شام نے بھی امریکا سے احتجاج کیا ہے۔
ادھر ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے کہا کہ یہ حملے امریکا کی مہم جوئی کی عادت کی غماز ہے جس کا نتیجہ صرف خطے میں کشیدگی اور عدم استحکام کی صورت میں نکلتا ہے۔