لاہور کے گردو نواح میں بنی ہاؤسنگ سوسائیٹز کے خلاف دائر درخواست پر لاہور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی تو ایک کے بعد دوسرا پنڈورا باکس کھل گیا ۔۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ قاسم خان نے سماعت کے دوران سخت ریمارکس دیئے . سماعت کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ہاؤسنگ سکیموں کے بارے میں ایل ڈی اے کی تمام وضاحتوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس سے بالکل مطمئن نہیں ۔لاہور شہر کو تباہ کردیا گیا جسے عدالت بچانے میں اپنا کردار ادا کرے گی .
ایل ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پر کتنے لوگ ہیں ؟ چیف جسٹس نے سوال اٹھاتے ان افسروں کی فہرست طلب کرلی ۔۔اور کہا کہ عدالت کو بتایا جائے کتنے افسروں کو بار بار ایل ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پر کیوں لایا گیا ؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ باہر سے لائے جانے والے افسر کو تو معاملات کا علم ہی نہیں ہوتا جب عدالت پوچھتی ہے اُسے ٹالنے کی کوشش کی کی جاتی .پھر معاملہ سامنے آیا لاہور میں قبرستانوں کا ۔تو چیف جسٹس نے ایک بار پھر سخت ریمارکس دیئے اور کہا کہ میانی صاحب قبرستان کی جگہ ایک ہندو خاتون نے دی تھی جس سے اب بھی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے ۔عدالت کو بتایا جائے سکیموں کے قبرستانوں میں قبر کے لئے جگہ کیسے دی جاتی ہے .
صرف یہی نہیں چیف جسٹس نے پنجاب حکومت کو لاہور کے چاروں کونوں پر کم از کم پچاس پچاس ایکٹر پر قبرستان بنانے کی فوری ہدایت کی . دوسری طرف عدالت میں موجود چیف سیکرٹری پنجاب وضاحتیں دیتے رہے مگر اُن دال گل نہ سکی ۔چیف سیکرٹری نے کہا کہ گرین لینڈ کا ایک فٹ استعمال کرنا بھی غلط ہے وزیراعظم کو تمام صورتحال سے آگاہ کر دیا گیا ہے .
جس پر چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیئے لوگوں نے ہاؤسنگ سوسائیٹز میں اپنی جمع پونجی لگا کر گھر بنائے عدالت کو بتایا جائے کیا حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ دو لاکھ گھروں کو مسمار کر دیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ لاہور شہر کا مسٹر پلان تباہ ہو چکا ہے ہر سال دوسرے علاقوں سے دس لاکھ لوگ شہر کا رخ کر رہے ہیں وقت کا تقاضا ہے کہ ماضی کی کوتاہیوں کو سدھارا جائے .