ایک نیوز:سپریم کورٹ میں نیشنل پارک ایریا میں تجارتی سرگرمیوں کیخلاف کیس کی سماعت مکمل ہو گئی، عدالت نے نیشنل پارک میں رہائشی سرگرمیوں کیخلاف فیصلے پر نظرثانی اپیلوں کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی جھونپڑی بنا لے تو فوراً گرا دیا جاتا ہے، موسمیاتی تبدیلی سے ملک تباہ ہوگیا لیکن یہاں مقصد صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے، چھوٹا سا کھوکھا بنانےکی اجازت ملی لیکن بڑے بڑے محل بنا دئے گئے۔
دوران سماعت وزارت دفاع کی جانب سے ڈائریکٹر لیگل بریگیڈئیر ریٹائرڈ فلک ناز عدالت میں پیش ہوئیں، فلک ناز کا کہنا تھا کہ عدالت نے میرے حوالے سے جو ریمارکس دیئے اس کی وجہ سے مجھے دلی دکھ ہوا، عدالتی ریمارکس میں کہا گیا کہ کورٹ مارشل ہونا چاہیے، کورٹ مارشل کا فوج میں پورا طریقہ کار ہے،ایک جنرل کی رائے پر بھی کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا، ،کورٹ مارشل کیلئے پورا قانونی طریقہ کار موجود ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو عدالتی فیصلے پر لکھا ہوا ہے آپ اس پر بات کریں۔
بریگیڈئیر ریٹائرڈ فلک ناز کو اپنی فیملی کے حوالے سے بات کرنے پر چیف جسٹس نے روک دیااور کہا کہ لگتا ہے آپ اخبارات میں سرخیاں لگوانا چاہتے ہیں، نیشنل پارک ایریا میں اگر ہر جگہ ریسٹورنٹ بن گئے تو لینڈسلائڈنگ سے اسلام آباد متاثر ہوسکتا ہے۔
سن شائن ہائیٹس کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیئےکہ 1996 میں ہمیں 53 سال کیلئے زمین لیز پر دی گئی تھی،راولپنڈی نے لیز منسوخی کو دوبارہ بحال کیا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ راولپنڈی میں فیصلہ دینے والے جج کا نام کیا تھا، جس پر وکین نے کہا کہ اس وقت جسٹس نواز عباسی نے کیس کا فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہی جج ہیں جنہوں نےایک فیصلے میں کہا تھا کہ ججز کو پلاٹس ملنے چاہیں، پہلے بھی بہت بدنامی ہوچکی ہے اب ان معاملات سے عدالتوں کو دور رکھیں،ہم نے نیشنل پارک کو تحفظ دینے کیلئے یہ فیصلہ دیا۔