ویب ڈیسک: وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں فوج تعینات کردی گئی ہے،سیاسی ورکرز اور عام شہری کل احتجاج سے پہلے دس مرتبہ سوچ لیں۔
تفصیلات کے مطابق محسن نقوی نے نیوزکانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آرمی کو پاکستان میں دوبارہ سے تعینات کیا جا رہا ہے، ایس سی او کانفرنس ہمارے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے، بطور پاکستانی آپ سیاست کریں لیکن 17 اکتوبر تک خیال کریں۔
وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے بھی احتجاج کو مؤخر کرنے کا کہا ہے۔ کئی سال بعد اس طرح سربراہان مملکت پاکستان آنا ایک اعزاز کی بات ہے، سیاسی ورکرز اور عام شہری کل احتجاج سے پہلے دس بار سوچیں، اس وقت اسلام آباد کے لیے بہت نازک وقت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ملائشیاء کے وزیراعظم آ چکے، اس کے بعد سعودی وفد آرہا ہے، اس کے بعد چین کے وزیراعظم آرہے ہیں اور ایس سی او کانفرنس ہے، کل کے احتجاج کی کال دے دی گئی ہے، پی ٹی آئی پاکستان کی جماعت ہے باہر کی جماعت نہیں، کوئی ہیڈآف سٹیٹ یہاں ہو اور آپ اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا بولیں یہ مناسب نہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہم نے ہر طریقے سے اپنے تمام تر انتظامات کرنے ہیں، ملائشیا کے وزیراعظم کی مہمان نوازی پر کوئی کمی نہیں آئے گی، نرمی یا کوئی اور دوسری سوچ کسی صورت نہیں ہوگی، اسلام آباد میں پہلے بھی دفعہ 144 کا نفاذ ہے، احتجاج سب کا حق ہے لیکن ملک کی قیمت پر نہ کریں،چھوٹا سا بھی واقعہ ہوگیا اس کا خمیازہ پوری زندگی بھگتنا ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ واجپائی صاحب جب لاہور آئے تو چھوٹا سا واقعہ ہوا آج تک بھگت رہے ہیں، ابھی بھی کہہ رہا ہوں کل تک کا وقت ہے، اگر کوئی کرے گا تو کسی قسم کی نرمی کی توقع نہ کرے، ہمارے لیے یہ بہت ہی باریک لائن ہے، ایڈوانس بتا رہا ہوں پھر کوئی یہ نہ کہے کہ نرمی کریں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو یہ سب زیب نہیں دیتا۔ پولیس کی کل کے حوالے سے مکمل تیاری ہے۔
محسن نقوی کا کہنا تھا کہ وزیراعلی خیبرپختونخوا سمجھدار اور سچے پاکستانی ہیں۔ امید ہے وہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں کریں گے جس سے ملک کا نقصان ہو۔ ہم ہر طرح سے کوشش کر رہے ہیں کہ معاملات سنبھال لیے جائیں۔ ہر لیول پر رابطے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے ہدایت کی کہ میڈیا ورکرز اپنے کارڈز پاس رکھیں۔ ہمارا پہلا مقصد اور ترجیع ملائشیا کے وزیراعظم کی مہمان نوازی ہے۔ آپ کے پاس آگے بھی دن ہیں پیچھے بھی، ان دنوں میں ہی احتجاج کیوں؟ پہلے بطور پاکستانی سوچیں پھر سیاسی ورکر بنیں۔ شہریوں سے ایڈوانس میں معذرت خواہ ہوں ہماری مجبوری ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہم شہر کو خوبصورت کر رہے ہیں تاکہ آنے والے کو اچھا لگے۔ سختی سے مراد سختی ہے کسی کو اچھا لگے یا برا۔ قانونی طور پر بھی اور ویسے بھی ہر حد تک جائیں گے۔ ہم کسی صورت افورڈ نہیں کر سکتے کہ کوئی معاملہ خراب ہو۔