ایک نیوز: سندھ ہائیکورٹ نے عثمان ڈار کی کراچی سے حراست میں لیے جانے کے بعد گمشدگی کیخلاف درخواست پر پولیس کو مقدمہ درج کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو پی ٹی آئی رہنماء عثمان ڈار کی کراچی سے حراست میں لیے جانے کے بعد گمشدگی کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر علی طاہر نے موقف دیا کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر عثمان ڈار کی گمشدگی کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے اظہار ناراضگی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عثمان ڈار کی گمشدگی کا مقدمہ درج کیوں نہیں کیا گیا؟ ایس ایچ او ملیر کینٹ نے بتایا کہ درخواستگزار کی جانب سے مقدمے کی اندارج کے لیے رجوع ہی نہیں کیا گیا۔ عدالت نے ایس ایچ او کو ہدایت کی کہ درخواستگزار کا بیان لیں اگر قابل دست اندازی جرم بنتا ہے تو مقدمہ درج کریں۔ایس ایچ او نے بتایا کہ عثمان ڈار کی گمشدگی کا مقدمہ درج کرنے کیلئےدرخواستگزار نے پولیس سے رجوع ہی نہیں کیا۔ بیرسٹر علی طاہر نے موقف دیا کہ نگراں وزیر داخلہ حارث نواز نے ٹی وی ٹاک شو میں اعتراف کیا عثمان ڈار پولیس کی تحویل میں ہیں،اب پولیس کہتی ہے عثمان ڈار کو حراست میں نہیں لیا گیا۔
عدالت نے پولیس کو آج ہی عثمان ڈار کی گمشدگی کا مقدمہ درج کرکے 18 اکتوبر کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیے کہ پولیس کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ مقدمہ درج ہوگا تو تحقیقات ہوگی، سب سامنے آجائے گا۔ عدالت نے سیکریٹری داخلہ سندھ سے بھی 18 اکتوبر کو تحریری جواب طلب کرلیا۔
دائر درخواست میں موقف اپنایا کہ 9 ستمبر کو عثمان ڈار کو حراست میں لیا گیا۔ عثمان ڈار کو 9 ستمبر کو ملیر کینٹ کے علاقے سے درجنوں مسلح اور سادہ لباس اہلکار اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ عثمان ڈار کی سیالکوٹ میں واقع فیکٹری اور رہائشگاہ بھی سیل کردی گئی ہے۔ عثمان ڈار کی گرفتاری نگراں حکومت کی بدنیتی ہے، عثمان ڈار کی نظر بندی غیر قانونی قرار دی جائے۔