ایک نیوز: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق دائر 9 درخواستوں پر سماعت ہوئی جس کی سرکاری ٹی وی کے ذریعے براہ راست کوریج کی گئی ۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب مارشل لاء لگتا ہے تو سب حلف بھی بھول جاتے ہیں۔ کیا آپ اگلے مارشل لاء کا دروازہ ہم سے کھلوانا چاہتے ہیں؟ملک کو فرد واحد نے تباہ کیا، چاہے مارشل لا ہو یا کوئی اور۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا اورعدالت عظمٰی کی تاریخ میں پہلی بار سماعت کوبراہ راست نشر کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے درخواستوں پر سماعت کی ،کیس کی سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ۔
اٹارنی جنرل اور فریقین سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سوال ہے کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو کم نہیں محدود کیا جا رہا ہے، چیف جسٹس کے اختیارات کو دیگر ججز کے ساتھ بانٹا جا رہا ہے، ہمارے پاس کافی مقدمے ہیں جو کہ بڑھتے جا رہے ہیں، اس قانون کا اثر چیف جسٹس اور سینئر ججز پر ہوتا ہے،ایک طرف چیف جسٹس کا اختیار کم نہیں محدود کیا جا رہا ہے، دوسری طرف یہی اختیار دو سینئر ججز میں بانٹا جا رہا ہے، اس کا اثر آنے والے چیف جسٹس پر بھی ہوگا، ہم اچھی طرح اس کیس کو سننا چاہتے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ آج اس کیس کو سن کر فیصلہ کر دیا جائے، تحریری دلائل ہم بعد میں پڑھ لیں گے چیدہ چیدہ نکات دلائل میں بتا دیں، خواجہ طارق رحیم، امتیاز صدیقی اور اٹارنی جنرل کو سن چکے ہیں۔
خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ مجھ سے سوالات پوچھے گئے تھے ان کے جوابات دینے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چاہیں گے پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیں۔
اکرام چودھری نے کہا کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم صرف دو تہائی اکثریت سے ہی کرسکتی ہے، اس قانون کو خاص وجہ سے بنایا گیا ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو مخصوص شخص کے لیے بنایا گیا، ایکٹ کے سیکشن 3 میں 184 تین کے کیسز کے لیے ججز کمیٹی بنائی گئی ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا سیکشن 5 نظر ثانی میں اپیل سے متعلق ہے، آرٹیکل 184 تین میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار تھی، پارلیمنٹ سادہ اکثریت سے آئین کے آرٹیکل نہیں بدل سکتی لہذا یہ شق بھی آئین سے متصادم ہے۔
وکیل اکرام چوہدری نے عدالت میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق خبر پڑھ دی۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ اپنے دلائل خبروں کی بنیاد پر دے رہے ہیں؟ آپ سیئنیر وکیل ہیں کیا اب خبروں کی بنیاد پر دلائل دیں گے؟ آپ قوم کے نمائندے نہیں درخواست گزار کے وکیل ہیں۔
جب یہ ایکٹ منظور ہوا اس وقت کی پارلیمنٹ کی صورتحال دیکھنا بھی ضروری ہے، پارلیمنٹ میں کی گئی باتوں کو لائیو رپورٹ بھی کیا گیا۔ چیف جسٹس نے پھر ریمارکس دیے کہ کیا آپ اپنے دلائل اخباری خبروں کی بنیاد پر دیں گے؟
وکیل نے کہا کہ ہمارے پاس پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے اسپیکر کو تحریری طور پر کارروائی کے ریکارڈ کیلئے درخواست کی؟ پارلیمنٹ اور عدلیہ الگ الگ آئینی ادارہ ہیں، اگر آپ نے اپنی معلومات تک رسائی کے حق کے تحت کارروائی کے لیے درخواست نہیں کی تو یہ دلیل مت دیں، آپ نے خود اسپیکر کو خط نہیں لکھا اور چاہتے ہیں کہ پورا سپریم کورٹ بیٹھ کر بےبنیاد دلیل سنے، وکیل نے دلائل میں کہا کہ میں پوری قوم کی طرف سے بات کر رہا ہوں۔یہ ایکٹ آئین کو ہی یکسر رد کرتاہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں عدالت نے آئینی ترمیم کا بھی جائزہ لیا، اس عدالت نے کہا تھا یہ عدالت اس کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، اگرچہ اکثریت نے ترمیم کو ٹھیک کہہ دیا تھا، آپ کا یہ کہنا شاید ٹھیک نہ ہو کہ آئینی ترمیم سے ہوجاتا تو ٹھیک تھا، جب آپ عدالت کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو کیا یہ آزادی ازخود نایاب چیز ہے یا یہ لوگوں کے لیے ہوتی ہے؟ عدالت کی آزادی صرف اس کے اپنے لیے ہے کہ اس کا ہر صورت دفاع کرنا ہے؟ عدالت کی آزادی لوگوں کے لیے نہیں ہے؟ اس بات پر روشنی ڈالیں۔
اکرام چودھری نے کہا کہ آرٹیکل سات ریاست کی تعریف واضح کرتا ہے، عدلیہ اس میں شامل نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کل پارلیمان کہے بیواؤں کے مقدمات کو ترجیح دیں تو کیا یہ عدلیہ میں مداخلت ہوگی؟ قانون سازی سے اگر لوگوں کو انصاف دینے کا راستہ ہموار اور دشوار کر رہی ہے تو یہ بتائیں، کیا ہماری آزادی خود ہی کافی ہے یا اس کا تعلق کسی اور سے بھی ہے؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کیس میں سوال اچھے یا برے قانون کا نہیں ہے، سوال پارلیمان کی اس قانون کو بنانے کی اہلیت کا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ 1973 کے آئین کے تحت بتائیے کہ کہاں قانون سازی کا اختیار ختم ہوتا ہے، پارلیمان کے اختیارات کا آئین سے ہی بتایا جانا ہے، غیر قانونی یا غیر آئینی تو آئین کی شقوں سے ہی بتایا جائے گا۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پورا دن سننا چاہتے ہیں لیکن اتنی مہلت نہیں، آپ نے 45 منٹ دلائل دیے ہیں۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فل کورٹ سماعت کے دوران دلچسپ صورتحال:
اکرام چوہدری نے اے کے بروہی کی کتاب کا حوالہ دیدیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے جو جملہ پڑھا میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، اس میں کہا عدلیہ کو حکومت کا ڈیپارٹمنٹ لکھا گیا، ہم تو حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ جس کتاب کا آپ حوالہ دے رہے ہیں یہ پہلے مارشل لاء کے بعد لکھی گئی، سپریم کورٹ نے اس مارشل لاء کی توثیق کی، کیا یہ کتاب مارشل لاء کے اثر میں لکھی گئی تھی؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کتاب لکھی گئی مئی 1958 میں اور مارشل لاء لگا اکتوبر 1958 میں، کتاب میں جوڈیشری ڈیپارٹمنٹ کا لفظ امریکی قانون کا حوالہ ہے، لفظ کا مطلب عدلیہ کو محکمہ کہنا نہیں ہے، ہر ملک کی اپنی اصطلاحات ہوتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو اپنے ضابطے کے رولز بنانے کے لیے بااختیار بناتا ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ججز کمیٹی پر تقسیم کر دیا، سپریم کورٹ خود اپنے اختیارات کو ایک یا جتنے بھی ججز میں تقسیم کر سکتی ہے، سپریم کورٹ کے اختیارات کا تقدس ہے۔
وکیل حسن عرفان نے دلائل میں کہا کہ قانون سپریم کورٹ کے اختیارات ایک کمیٹی کو دے رہا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ اختیار چیف جسٹس کا نہیں سپریم کورٹ کا ہے؟
وکیل حسن عرفان نے کہا کہ پوری سپریم کورٹ کے ججز بیٹھ کر رولز بناتے ہیں۔ جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا سپریم کورٹ کے اختیارات کسی ایک کو دئیے جا سکتے ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کس قانون کے تحت دوسرے کو دئیے جا سکتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آئین کے تحت کیسے قانون سازی کو خلاف قانون کہہ سکتے ہیں، آئین میں کیا لکھا ہے پارلیمان ایسی قانون سازی نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس اور بھی کیسز ہیں، ہم نے اس اونٹ کو کسی کنارے لگانا ہے، قانون سازی سے کون سی آئینی شق متاثر ہورہی ہے، آج کے بعد یہ کیس نہیں چلے گا، اگر آپ دلائل اس طرح دیں گے تو درخواست گزاروں کا وقت کم ہوگا، پھر ہم رات تک بیٹھ کر اس کیس کو سنیں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کا اختیار ہے یا نہیں؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا عوامی فلاح کیلئے چیف جسٹس پاکستان کے لامحدود اختیار کو پارلیمنٹ ریگولیٹ نہیں کرسکتا۔
درخواستگزار کے وکیل نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون نہیں بناسکتی۔ جسٹس طارق مسعود نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کو کیوں قانون سازی کا اختیار نہیں؟
ایڈووکیٹ عرفان نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بھی اس قانون سازی پر اختلاف تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا ججز اپنے اختیارات چیف جسٹس پاکستان کو خود سونپ سکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس اختیارات دوسروں کو سونپنے کا نہیں ہے، کیا پارلیمنٹ اختیارات وفاقی حکومت کو بھی سونپ سکتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پھر یہ سلسلہ کہاں جاکر تھمے گا، کل پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کو سونپ دے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ قانون انصاف کی رسائی کا ہے، پارلیمنٹ کیوں قانون سازی نہیں کرسکتا؟
کیا آپ اگلے مارشل لاء کا دورازہ ہم سے کھلواناچاہتے ہیں؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آتا ہے، مارشل لاء لگے تو حلف بھی بھول جاتے ہیں، کیا آپ اگلے مارشل لاء کا دورازہ ہم سے کھلواناچاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں جاری پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران درخواستگزار مدثر حسن کے وکیل حسن عرفان سے سوال کیا گیا کہ صرف یہ بتا دیں کہ کن دفعات سےآپ متفق یا مخالف ہیں۔ تو وکیل حسن عرفان نے جواب دیا کہ تمام عدالتی سوالات کے جواب آئین میں موجود ہیں، پارلیمان نے قانون سازی کی آڑ میں آئین میں ترمیم کر دی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ مفاد عامہ کی بات کر رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا انصاف تک رسائی کیلئے قانون سازی نہیں ہوسکتی، درخواست گزار اس کیس سے کیسے متاثرہ فریق ہے۔ وکیل نے جواب دیا کہ میرا مؤکل وکیل ہے اور نظام انصاف کی فراہمی کا اسٹیک ہولڈر ہے۔ جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ عوام کا انصاف تک رسائی کا بنیادی حق کیسے متاثر ہوا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ انصاف تک رسائی کیلئے عدالت کو آزاد ہونا چاہیے، عدلیہ کی آزادی بنیادی حقوق سے جڑی ہے، پہلے بتائیں کہ ایکٹ سے بنیادی حق کیسے متاثر ہوتا ہے، درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے آگے نکل چکے ہیں، انصاف تک رسائی کیلئے بنیادی شرط آزاد عدلیہ ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا اپیل کا حق نہ ہونا انصاف تک رسائی کے منافی نہیں۔ وکیل حسن عرفان نے مؤقف پیش کیا کہ قانون سازوں کے ذہن میں شاید یہ سوال کبھی آیا ہی نہیں تھا، پارلیمان سپریم ضرورہے لیکن آئین کے بھی تابع ہے، چیف جسٹس، وزیراعظم اور صدر نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حلف میں آئین کے ساتھ قانون کا بھی ذکر ہے، اسے مدنظر رکھیں، جب مارشل لاء لگتا ہے سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں، مارشل لاء لگے تو حلف کو بھول جایا جاتا ہے، پارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آ جاتا ہے، یہاں مارشل لاء نہیں ہے، ماضی میں وکلاء 184تین کے بے دریغ استعمال پر تنقید کرتے رہے، آپ کے بطور شہری اس ایکٹ سے کون سے حقوق متاثرہوئے، کیا آپ اگلے مارشل لاء کا دروازہ ہم سے کھلوانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے:
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پہلے مارشل لاء کو سپریم کورٹ نے اپیل میں درست قرار نہیں دیا، سپریم کورٹ غلطی پر مستقبل میں اس کی درستگی کر سکتی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا پارلیمنٹ چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کر سکتا ہے، آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو اختیار دیتا ہے کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کر سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریگولیٹ کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کا تحریری آئین ہے، ایک شخص آیا اور کہا گیا کہ ٹھیک ہے آئین کو روند دیں، جب بعد میں کوئی وضاحت آئے گی تو فیصلہ کریں گے، کبھی سپریم کورٹ نے کہا مارشل درست تھا اور کبھی کہا غلط تھا، کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں ہم جنگل کے بادشاہ ہیں چاہے انڈے دیں یا بچے دیں۔
وکیل حسن عرفان نے کہا کہ اصل سوال عدالت نے حل کرنا ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم نے ہی کرنا ہے تو آپ بیٹھ جائیں ہم خود دیکھ لیتے ہیں۔
چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت اختیار پہلے سے سپریم کورٹ کے پاس ہے، پارلیمنٹ نے اس اختیار کو بڑھایا؟ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر آئین ساز سمجھتے کہ آرٹیکل 184 تھری میں اپیل ہونی چاہئے تو آرٹیکل 185 میں شامل کر دیتے، یہ کہنا کہ سپریم کورٹ کے لیجسلیٹیو انٹری کے ذریعے بڑھایا جا سکتا ہے کیسے ممکن ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا ہے تو مسابقتی کمیشن کے قانون میں اپیل کا حق کیسے دے دیا گیا تھا؟
وکیل عذیر بھنڈاری نے دلائل میں کہا کہ فیڈرل قانون سازی فہرست کے علاوہ کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ قانون سازی کی لسٹ میں سپیس پروگرام اور مصنوعی ذہانت کا ذکر ہے نہ ہی سوشل میڈیا کا، کیا پارلیمان سپیس پروگرام کے حوالے سے قانون سازی نہیں کر سکتی؟ اگر قانون سازی ہوتی ہے تو پارلیمان کون سا اختیار استعمال کرے گی؟
عذیر بھنڈاری کی جانب سے امریکی عدالت کے فیصلے کا حوالہ:
پی ٹی آئی کے وکیل کیجانب سے امریکی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ امریکی عدالت کو چھوڑیں اپنے آئین کی بات کریں۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ جناب میں سپیس پروگرام کے حوالے سے کیس تیار کرکے نہیں آیا، دو سماعتوں سے میں سن ہی رہا ہوں اب آپ بھی مجھے بولنے دیں۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے طریقے سے دلائل دیں میں معذرت خواہ ہوں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 184 تھری کا اختیار پہلے سے موجود ہے اس میں صرف ایک اپیل کا حل دیا گیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اپیل کا حق ایک بنیادی حق ہے جس کو باقاعدہ قانون سازی سے دیا جانا چاہئے، عام قانون سازی سے یہ قانون سازی کا حق دیا نہیں جا سکتا، کیا اس سے پہلے پارلیمنٹ اکثریت سے ترمیم نہیں کر سکتی تھی؟ اس وقت پر یہ قانون سازی کرنا کیوں ضروری تھی؟
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس سوال کو ماضی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے، بینظیر بھٹو اور درشن مسیح کیسز میں سپریم کورٹ نے 184/3 پر بہترین فیصلے دیے، سال 2010 کے بعد 184/3 کا بے جا استعمال ہی اس قانون کی وجہ بنا۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ماضی میں اگر عدالت غلط کرتی رہی ہے تو اب ہارلیمان بھی کر رہی ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر پارلیمنٹ ڈیٹا پروٹیکشن کا قانون بناتی ہے جو سپریم کورٹ رولز سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ ایسی صورت میں قانون کی بالادستی ہوگی یا رولز کی؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ ایسی صورت میں رولز بالادست ہوں گے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون حاوی ہوگا یا رولز۔ جس پر وکیل عذیر بھنڈاری نے دلائل دیے کہ میری نظر میں رولز کو اہمیت دی جائے گی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں رولز بائینڈنگ ہیں قانون نہیں۔ پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ رولز آئین کے تحت بنائے گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 204 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، پارلیمان نے آرڈیننس کے تحت 204 میں اپیل کا حق دیا ہے، کیا پہلے اس نکتے کی وضاحت کر دیں کہ اپیل کا وہ حق کیسے درست ہے اور یہ غلط، سپریم کورٹ نے 184/3 میں وزیراعظم کو نااہل قرار دیا، آرٹیکل 204 میں کہاں لکھا ہے کہ اپیل کا حق حاصل ہوگا؟
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 میں کہاں لکھا ہے کہ اس کا اطلاق قانون کے تحت ہوگا؟ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئین سے ہٹ کر کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مسابقتی کمیشن قانون سمیت بہت سے قوانین آئین کے اندر نہیں تو انکا کیا ہوگا، آئین میں جو چیزیں نہیں کیا قانون سازی سے انکو شامل نہیں کیا جاسکتا؟
پی ٹی آئی وکیل نے دلائل میں کہا کہ اسپیشل ٹریبونل بنائے گئے ہوں تو ان کیخلاف اپیل دی جاسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ آئین میں لکھا ہوا ہے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین میں کچھ موضوعات پر قانون سازی کا حق دیا گیا ہے، آرٹیکل 191 میں قانون سازی کا اختیار کہیں نہیں دیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا ہے تو آرٹیکل 191 میں قانون کے تابع رولز بنانے کے الفاظ غیرموثر ہوجائیں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپکے دلائل مان لیں تو مسابقتی کمیشن ایکٹ میں اپیل کا حق بھی غیرآئینی ہے۔ وکیل نے دلائل میں کہا کہ جو قانون عدالت میں زیر بحث نہیں اس پر رائے نہیں دوں گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق ملنے سے تحریک انصاف کو کیا مسئلہ ہے؟ پی ٹی آئی نے اپنا مؤقف پارلیمان میں کیوں نہیں اٹھایا۔ وکیل پی ٹی آئی نے دلائل میں کہا کہ کسی سیاسی فیصلے کا دفاع نہیں کروں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سیاسی جماعت کے وکیل ہیں تو جواب بھی دینا ہوگا۔ پی ٹی آئی وکیل نے دلائل میں کہا کہ اسمبلی سے مستعفی ہونا سیاسی فیصلہ تھا، تحریک انصاف کے ہر اقدام کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر اپیل کا حق دے دیا گیا ہے تو کیا قیامت آگئی؟ ہو سکتا ہے آپ پارلیمنٹ میں یہی خوبصورت دلائل دیتے تو آپ کی بات مان لی جاتی، میں اگر کہتا ہوں عزیر بھنڈاری ہمیشہ وقت ضائع کرتا ہے، میں عزیر بھنڈاری کو عدالت پیش ہونے سے روک دیتا ہوں تو آپ کیا کریں گے، اگر چیف جسٹس نے ایک فیصلہ کر لیا تو مطلب اب کچھ بھی نہیں ہوسکتا، پارلیمنٹ نے دیکھا ہے کہ 184/3 کا غلط استعمال ہوا، از خود نوٹس کے غلط استعمال پر پارلیمنٹ نے اپیل کا حق دیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے تمام فیصلے درست نہیں ہوسکتے، اگر ہر کیس میں اپیل کا حق دے دیا جائے تو ہر بندہ اپیل لیکر آجائے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک مثال دے دیں کہ دنیا کی کسی عدالت میں سزا کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہے؟
پی ٹی آئی وکیل نے دلائل میں کہا کہ باہر دنیا میں جانے کی کیا ضرورت ہے اپنے ملک کی مثال دیکھ لیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ امریکہ اور ہماری عدالت میں ایک بنیادی فرق ہے کہ وہاں فل کورٹ بیٹھتی ہے، امریکہ میں تو غلامی تھی خواتین کو ووٹ کا حق برصغیر کے بعد ملا، ہم امریکہ سے زیادہ متاثر کیوں ہیں، امریکہ میں دو تین ججز کے بجائے فل کورٹ کیس سنتی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ امریکہ کی عدالت میں ازخود نوٹس کا بھی تصور نہیں۔ پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ امریکہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ خود 184 تین میں اپیل کا حق دے دے تو کیا ہوگا؟ پی ٹی آئی وکیل نے دلائل دیے کہ پھر بھی اپیل ممکن نہیں ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئینی ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے اور اس سے اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے، پارلیمنٹ اپیل کا حق دینے میں بااختیار ہے لیکن دینے کا طریقہ کار کیا ہو یہ مسئلہ ہے؟ جسٹس عائزہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اپیل کا حق اتنا ہی ضروری ہے تو تین رکنی کمیٹی کیسے اپیل کیلئے فیصلہ کرے گی؟ فل کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کیسے ہوگی؟
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے پارلیمانی کارروئی کا ریکارڈ مانگا تھا جو تاحال نہیں ملا،بنیادی سوال قانون سازی کا طریقہ کار ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی تو اپیل کا حق ہے ہی نہیں، اپیل کتنے ججز سنیں گے کیا نمبر ہو گا یہ بعد کی بات ہوگی، یہ سوال کہ فل کورٹ بیٹھ کر کیس سن رہی ہے اس کی اپیل کون سنے گا، اس کا سادہ سا جواب ہے کہ فل کورٹ اگر بیٹھ کر غلط فیصلہ کرے تو بات ختم، فل کورٹ کے بیٹھنے سے بات ختم ہو جاتی ہے، اگر قانون کالعدم ہوگیا تو اپیل کا حق ہی ختم ہوجائے گا، اگر 17 ججز نے بھی بیٹھ کر غلطیاں کرنی ہیں تو اپیل کا حق ہونا ہی نہیں چاہیے۔
پی ٹی آئی وکیل نے دلائل میں کہا کہ اگر سپریم کورٹ قانون برقرار رکھتی ہے تو اپیل کا حق مل جائے گا، جو فیصلے 9 رکنی یا اس سے بڑے بنچ کریں گے ان کے خلاف اپیل کہاں جائے گی؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہوسکتا ہے پی ٹی آئی کو اپیل کے حق سے فائدہ ہی ہوجائے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ مسئلہ فائدے یا نقصان کا نہیں ہے، آج میرا مؤکل جیل میں ہے کل دوبارہ اقتدار میں آ سکتا ہے، مجھے موکل کی ہدایات ہیں کہ قانون برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہدایات لینے کی بات نہ کریں یہ 184/3 کا مقدمہ ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ اور پارلیمان میں ہاتھاپائی بھی ہوتی رہی ہے، عدالت نے اپنے ادارے کا تحفظ کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے پارلیمان کا بھی تحفظ کرنا ہے، تمام ججز مجھے فل کورٹ اجلاس بلانے کا کہیں اور میں نہ بلاؤں تو کوئی کچھ نہیں کرسکے گا، پارلیمنٹ نے کہا کہ چیف جسٹس کو اچھا لگے یا نہیں لیکن یہ ایکٹ بنانا ہے، چیف جسٹس خود سے کبھی یہ قانون نہ بناتے، چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کرنا مقصود تھا، چیف جسٹس کے غیر مناسب کنڈکٹ بارے کون کچھ کہہ سکتا ہے؟ جمہوریت اور اسلام میں ایک شخص کو تمام اختیارات دینے کی اجازت نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ جب سپریم کورٹ رولز بنے کیا اس وقت کوئی قانون تھا؟ قانون تو اب 2023 میں بنا ہے تو آرٹیکل 191 میں کس قانون کا ذکر ہے؟ میرے خیال میں آئین کو غیرآئینی طریقے سے ترمیم کیا گیا ہے۔
سماعت ملتوی:
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں چاہ رہا تھا کیس آج ختم کریں، مگر وکلا کو سننا ہے، انہیں ناراض نہیں کرتے، فریقین تحریری معروضات جمع کروانا چاہیں تو کروا سکتے ہیں، 9 اکتوبر کو کیس کی سماعت مکمل کرنی ہے، وکلاء اپنے دلائل کو مختصر اور جامع رکھیں ،آئندہ سماعت پر سب نے دلائل مکمل کرنے ہیں چاہے رات کے 12 کیوں نہ ہو جائیں۔مسل لیگ نون،ق لیگ ،ایم کیو ایم اور جے یو آئی ف کے وکلا کو بھی پیر کے دن سنیں گے ۔
چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ مجھے بہت خوشی ہے آپ کے جواب کا ایک ایک لفظ پڑھوں گا،آئین میں لکھا ہے حاکمیت اللہ پاک کی ہے،قرآن پاک میں بھی مشاورت سے کام کرنے کے احکامات ہیں،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بھی مشاورت سے فیصلے کا کہتا ہے ۔اگر سترہ ججز بھی یہی غلطیاں کرنی ہے تو پھر اپیل کا حق ہونا ہی چاہیے،