دبئی ائیر پورٹ ، الامارات ائیر لائنز کامیابی کی داستان کیسے بنے؟

dubai airport and PIA
کیپشن: dubai airport and PIA
سورس: google

 ایک نیوز نیوز: دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ آئندہ سال 2023 تک 118 ملین افراد کو سفر کی سہولت فراہم کرنے لگے گا۔ 

 عرب ذرائع ابلاغ کی رپورٹ  کے مطابق دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا افتتاح 30 ستمبر 1960 کو ہوا تھا۔ مڈل ایسٹ ایئرلائنز کے طیارے نے پہلی اڑان بھری تھی۔اس موقع پر تین ہزار افراد گاڑیوں اور بسوں سے ایئرپورٹ پہنچے تھے۔ گھوڑوں اور اونٹوں  پر بھی لوگ افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ 

 62 برس بعد دبئی ایئرپورٹ نے پوری دنیا میں اپنی منفرد پہچان بنالی ہے۔ 2018 میں ایئرپورٹ سے سفر کرنے والوں کی تعداد ایک ارب تک پہنچ گئی۔
دبئی نے ایک چھوٹے سے ایئرپورٹ سے اپنی ترقی کا سفر شروع کیا تھا اور چندعشروں کے دوران سیاحت، تجارت، فنڈنگ اور ہوابازی کے حوالے سے اب پوری دنیا میں سرفہرست ہے۔  1960 میں دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے سفر کرنے والوں کی تعداد تین لاکھ 15 ہزار تھی جبکہ 1970 میں مسافروں کی تعداد 5 لاکھ 24 ہزار سے زیادہ ہوگئی تھی۔
دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ 1997 میں تاریخ میں پہلی مرتبہ بڑے ایئرپورٹس کے کلب میں شامل ہوا۔ دنیا کے دس تیز رفتار ترقی کرنے والے ایئرپورٹس میں چھٹے نمبر پر تھا۔ ایئرپورٹ نے 14 فیصد شرح نمو ریکارڈ کرائی تھی جو ایشیا اور یورپی ممالک کے بڑے ائیر پورٹس کی شرح نمو سے زیادہ تھی۔ 
 2014 میں دنیا کے مصروف ترین ایئرپورٹس میں 70.4 ملین مسافروں کے ساتھ سرفہرست رہا۔دبئی ایئرپورٹ سے اس وقت سالانہ 90 ملین افراد سفر کررہے ہیں۔ 223 تک 118 ملین سے زیادہ افراد کو سفری سہولت حاصل ہوگی۔ دبئی ایئرپورٹ دنیا کے بڑے ایئرکارگو سینٹرز میں سےبھی ایک ہے۔ 1970 سے  ستمبر 2020 تک 40.8 ملین ٹن سے زیادہ سامان کی ترسیل کرچکا ہے۔
ایمریٹس نے 25 اکتوبر 1985 کو صرف دو طیاروں سے پروازوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ابتدا میں بوئنگ 737 اور ایئر بس بی فور300 کرایے پر حاصل کرکے کراچی کے لیے پروازیں شروع کی تھیں۔ یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہوگا کہ 25 اکتوبر سنہ 1985 کو متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی سے   کراچی کے لیے روانہ  ہونے والی  ایمریٹس کی پرواز کے لئے  پاکستان کی قومی فضائی کمپنی کا ایک ایئربس اے تھری ہنڈرڈ طیارہ اور عملہ استعمال کیا گیا۔
یہ تاریخی پرواز دنیا کی بہترین فضائی کمپنی بننے والی ایئرلائن الامارات یا ایمریٹس کی پہلی پرواز تھی جس نے دنیا میں ہوائی سفر اور آسائش کے تصور کو یکسر بدل دیا اور اس کام میں اس کی مدد کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے اور اس کے پائلٹس سرفہرست تھے۔

مگر سب سے زیادہ بدقسمتی پی آئی اے کے حصے میں آئی اور پی آئی اے کے برے دنوں کا آغاز ایمریٹس کے اچھے دنوں کے ساتھ ہی ہو گیا۔

1985 کے بعد سے پی آئی اے کے حالات واضح طور پر بگڑتے گئے اورحالت یہاں تک پہنچ گئی کراچی جہاں کی ٹریفک کے لیے گلف ایئر کے ساتھ سارا تنازع کھڑا ہوا تھا وہ پی آئی اے اور گلف دونوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔

جہاں ایمریٹس کی روزانہ سات پروازیں چلتی تھیں وہیں پی آئی اے کی بمشکل ایک پرواز روزانہ چلتی تھی وہ بھی ایمریٹس کی ایک پرواز کے نصف مسافروں کے تعداد کے برابر۔

مسلم لیگ ن کی حکومت خاص طور پر ایمریٹس پر بے انتہا مہربان رہی جس نے بغیر اپنی ایئرلائن اور پاکستانی انڈسٹری کے تحفظ کے معاہدے کیے اور اپنے دوسرے دورِ حکومت میں ایمریٹس کو پشاور، لاہور اور اسلام آباد تک رسائی دی جبکہ دوسرے دورِ حکومت میں ملتان اور سیالکوٹ بھی پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا۔

اب حالت یہ ہے کہ دبئی پاکستان کی کسی بھی ایئرلائن کا منافع بخش یا پسندیدہ روٹ نہیں ہے اور بہت ہی کم تعداد میں پروازیں پاکستان سے دبئی کے لیے چلائی جاتی ہیں اور اس روٹ پر مکمل اجارہ داری ایمریٹس گروپ کی ہے۔ صرف ایمریٹس ان 35 سالوں میں پاکستان سے 28 ملین یعنی دو کروڑ 80 لاکھ مسافر لے جا چکی ہے۔

ایمریٹس نے جس انتظامیہ کے ساتھ ایئرلائن شروع کی تھی وہ لوگ آج بھی ایئرلائن چلا رہے ہیں۔

ٹم کلارک جو ابتدائی دس افراد کی ٹیم میں شامل تھے اب ایئرلائن کے صدر ہیں، شیخ احمد بن سعید المکتوم اب بھی ایئرلائن کے سربراہ اور گروپ کے چیئرمین ہیں۔ اس دوران پی آئی اے کے درجنوں کی تعداد میں سربراہ آئے اور گئے اور ان سب کے ساتھ پالیسی بدلتی رہی۔