سپیکر کی سپریم کورٹ کو ریکارڈ فراہمی کا معاملہ کمیٹی کو سونپے کی تجویز

سپیکر کی سپریم کورٹ کو ریکارڈ فراہمی کا معاملہ کمیٹی کو سونپے کی تجویز
کیپشن: Speaker's proposal to entrust the issue of providing records to the Supreme Court to the committee

ایک نیوز:سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے سپریم کورٹ کو اسمبلی کی کارروائی کاریکارڈ سونپنے کا معاملہ خصوصی کمیٹی کے سپرد کرنے کی تجویز دیدی۔

تفصیلات کے مطابق سپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں سپریم کورٹ کو اسمبلی کی کارروائی کاریکارڈ بھیجنے کاجائزہ لیاگیا۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ نے ریکارڈ مانگا ہے اور ہم نے انکار کردیا ۔ہاؤس کا ریکارڈ اس ایوان کی پراپرٹی ہے ایوان سے پوچھے بغیر ریکارڈ نہیں دیا جاسکتا۔ریکارڈ درست کرتا چلوں، برجیس طاہر صاحب اور میں جس عمر کے حصے میں ہم بھول جاتے ہیں مگر کچھ یاد کراتا ہوں ۔اس وقت الہی بخش نے ایوان سے پوچھے بغیر ریکارڈ سجاد علی شاہ کو دیدیا تھا ۔اس ایوان کا ایک حذف شدہ حصہ بھی مانگا گیا تھا ۔ریکارڈ مانگا جانا سنجیدہ معاملہ ہے، اس ایوان کے سامنے اس معاملے کو رکھا جائے اور ایوان کی ہاؤس آف دی کمیٹی بنائی جائے ۔اس ایوان میں بحث کرکے بتایا جائے کیوں ریکارڈ مانگا گیا ہے یہ ایوان بالادست اور سپریم کورٹ کا خالق ہے ۔اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے اسی چیز کی ضرورت ہے۔

سابق وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ برجیس  طاہر نے جو بتایا وہ مکمل نہیں تھا ۔۱۹۹۷ میں سپریم کورٹ نے ریکارڈ مانگا۔اسپیکر ہماری مرضی کے بغیر وہ ریکارڈ نہیں دے سکتا۔الہی بخش سومرو نے اس وقت کسی وجہ سے وہ ریکارڈ دے دیا تھا۔پھر سجاد علی شاہ نے حذف شدہ ریکارڈ مانگا اس کا نہیں معلوم کیا ہوا؟۔یہ معمولی بات نہیں ہے، اسمبلی جج صاحب کو بلا کر پوچھے کہ انہیں کیوں ریکارڈ چاہئے۔اس معاملہ پر کمیٹی بنائی جائے،ہم نے کل ایک تحریک پر کمیٹی بنائی ہے اسے ہی یہ ٹاسک بھی دے سکتے ہیں۔

وزیردفاع خواجہ آصف کا قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دو آئینی ادارے آمنے سامنے آچکے ہیں ۔ایک قرارداد کے ذریعے آپ کمیٹی بنا دیں ۔جسٹس منیر سے لیکر آج دیکھیں آئین کے ساتھ کیا ہوتا رہا ہے ۔ہم دو راہے پر کھڑے ہیں تاریخ بن رہی ہے ۔شاہد خاقان عباسی نے جو بات کی اس میں ہم پر توہین عدالت لگائی گئی ۔ہم بھی عدالت کے ساتھ ہیں لیکن دائرہ اختیار کی خلاف ورزی کے خلاف ہیں ۔جب بھی آئین کی خلاف ورزی ہوئی ججوں نے انگوٹھے لگائے ۔ہم نے بھی سہولت کاری کی ہم بھی مبرا نہیں ہیں ۔ایک لاکھ اسی ہزار مقدمے اس وقت التواء ہیں ۔51ہزار مقدمے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں 

چار لاکھ کیسز زیر التوا ہیں یہ ہماری عدلیہ کا حال ہے ۔یہ مقدمے تو نمٹائیں اس کے بعد ہم سے بھی دست و گریبان ہوں ۔اللہ نہ کرے یہ وقت آئے ۔لوگوں کو پھانسی ہوجاتی ہے فیصلے اس کے بعد آتے ہیں ۔جو قرارداد میں نے بنائی آپ کو بھیج دیتا ہوں ۔اس قراداد کی روشنی میں کمیٹی بنائیں ۔ہم اپنی تخلیق کی خلاف ورزی نہیں۔ کرینگے نہ کرنے دینگے۔

وفاقی وزیرتعلیم میاں جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ جب میثاق جمہوریت پر دستخط ہوے تو ایک ادارے نے سمجھا کہ یہ اتحاد ہمارے خلاف ہے ۔پھر ایک شخص کو لانچ کیا گیا ۔آج اگر اس ادارے نے اعتراف کیا کہ یہ ملک کیلئے ٹھیک نہیں تھا ۔آج جو ہورہا ہے وہ دوسرا ادارہ ہے وہ سہولت کاری کیلئے بے تاب ہے ۔وہ ادارہ جو کبھی پیچھے اور آگے کھڑے ہوتا تھا وہ سامنے کھڑا ہے ۔کیا یہ سہولت 23 کروڑ لوگوں کو میسر ہے ۔سیاستدانوں کو تو ہمیشہ بلی چڑھایا جاتا رہا ۔جب بنی گالہ کو ریگولرائز کیا گیا اس وقت ثاقب نثار کا پلاٹ موجود تھا ۔اس وقت موجودہ لوگوں میں سے بھی ایک کا پلاٹ موجود ہے ۔نور عالم خان سے کہتا ہوں پلاٹوں کی تفصیل منگوائیں 

آج پہلی دفعہ یہ پارلیمان آئین اور قانون کی تحفظ کیلئے کھڑی ہے ۔پارلیمنٹ کو ہمیشہ بندوق اور ہتھوڑے سے ڈرا کے کمپرومائز کیا گیا۔آج الیکشن کمیشن نے اپنی آزادی کیلئے جو آواز اٹھائی ۔اگر الیکشن کمیشن کے پیچھے ۔پارلیمان کھڑی نہیں ہوتی تو حال جسٹس وقار سیٹھ کی طرح ہوگا۔

وفاقی وزیر سید نوید قمر کاکہنا تھا کہ کل سے بحث چل رہی ہے کہ کون بالادست ہے ، بحث کی بجائے سبز رنگ کی کتاب میں سب لکھا ہے ۔ہر ادارے کا اپنا اپنا کردار اس آئین میں درج ہے ۔آئین بنانا صرف اور صرف اس ایوان کا اختیار ہے کوئی اور ایک لفظ بھی بڑھائیگا تو وہ خلاف ورزی کرے گا ۔سیاسی مذاکرات سے ہی مسائل کا حل ہونا ہے، پیپلز پارٹی نے یہ حل تجویز کیا ۔سیاست میں اور سیاستدانوں کے پاس وہ لچک ہوتی ہے کہ وہ مسائل کے حل کےلئے  بیٹھتے ہیں لو اور دو پر معاملہ چلتا ہے ۔کیونکہ عدالت کہتی ہے ہم حکم دیتے ہیں جو واپس نہیں ہوسکتا، فوج کہتی ہے ہم صرف حکم کے مطابق چلتے ہیں ۔سیاست دان ہی ہوتا ہے تو مسائل کا حل سیاسی مذاکرات کے ذریعے نکالتا ہے ۔اس تمام تناظر میں اسی بلڈنگ میں مذکرات شروع ہوئے اور مختلف ادوار ہوئے ہیں ۔آج جہاں کھڑے ہیں، اتنا ضرور کہوں گا کہ کافی پیش رفت ہوئی ہے ۔

سید نوید قمر کا مزید کہنا تھا کہ اس معاملے کا بنیادی ایجنڈا انتخابات ہیں مگر ایک تنازع سپریم کورٹ کے حکم کا کھڑا ہے ۔جن اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری نہیں کی تو وہ کسی کی سزا کیوں بھگتیں، چاہے وہ کسی کی خواہش یا حکم پر ہوئیں۔یہ معاملات مذاکرات کے ذریعے ہی آگے بڑھتے ہیں ہٹ دھرمی سے مسائل حل نہیں ہوتے ۔جب تک لچک نہیں دکھائی جائیگی معاملہ آگے نہیں بڑھے گا ۔جب یہ کہا جائے کہ ہمارے پاس عدالت کا ایک ہتھیار ہے تو پھر تو سب کچھ دھرا رہ گیا ۔ہم مذاکرات کسی کے کہنے پر نہیں کررہے تھے نہ عدالت کا کام ہے ہمیں بات چیت کے لئے حکم دے ۔دوسری طرف یی ٹی آئی سمجھتی تھی کہ عدالت کے حکم پر مذاکرات ہورہے ہیں ۔ہم نے 12 جماعتوں کیساتھ بات چیت کا ماحول بنایا مگر یہ کہہ دیا جائے کچھ صفر ہی ہوا تو یہ لچک نہیں ۔ہم حکومتی اتحاد مذاکرات کی کامیابی چاہتے ہیں، اس اتحاد نے بہت لچک دکھائی ہے ۔آئین کے تحفظ کے لئے حکومتی اتحاد نے واضح بھی کیا لچک بھی دکھایا ۔