عدالت نےپی ٹی آئی سیکرٹریٹ سیل کرنےکیخلاف فیصلہ محفوظ کرلیا

Jun 03, 2024 | 12:15 PM

ایک نیوز:اسلام آبادہائیکورٹ نےپی ٹی آئی کامرکزی سیکرٹریٹ سیل کرنےاورسی ڈی اےآپریشن کےخلاف درخواست پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔
تفصیلات کےمطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کیس کی سماعت کی ۔
پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب کی جانب سے وکلاء شعیب شاہین اور عمیر بلوچ و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
سی ڈی اے کی جانب سے وکیل حافظ عرفات جبکہ ضلعی انتظامیہ سے اسٹیٹ کونسل ملک عبد الرحمٰن عدالت پیش ہوئے۔ 
پی ٹی آئی وکیل شعیب شاہین نےموقف اختیارکیاکہ سی ڈی اےنے اپنے ریکارڈ میں نوٹسسز لگائے مگر موجودہ نوٹس کا کوئی ذکر نہیں، سی ڈی اے نے فراڈ کیا، اگر دیکھا جائے تو دو نوٹسسز کا ایک ہی نمبر ہے،انہوں نے جو نوٹسسز بھیجےوہ پی ٹی آئی کو نہیں بلکہ سرتاج علی کو بھیجے ہیں، انہوں نے میڈیا کے سامنے بیان دیا کہ ہم سرتاج علی سے زمین واگزار کرارہے ہیں، انہوں نے آپریشن کے وقت میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ پی ٹی آئی کو ہم نے نوٹس ہی نہیں کیا۔
درخواست میں موقف اپنایاگیاکہ ارشد داد اور نسیم الرحمن دونوں پی ٹی آئی کے ممبران ہیں ۔
 وکیل حافظ عرفات نےکہاکہ ارشد داد اور نسیم الرحمن نے 17 جولائی 2020 کو ایک ایگریمنٹ کے بعد کمرشل پلاٹ خریدا ،29 جولائی 2020 کو جی ایٹ کے اس پلاٹ کے مالک سرتاج علی نے سی ڈی اے کو ٹرانسفر کا خط لکھا۔
شعیب شاہین نےکہاکہ30 جولائی 2020 کو سرتاج علی کا یہ پلاٹ پی ٹی آئی کے نام کرلیا گیا، اگر انہوں نے فراڈ نہیں کیا تو تمام نوٹسسز کے ریفرنس نمبر کیوں نہیں ہیں؟ شوکاز نوٹس سے پہلے نوٹس دینا ضروری ہوتا ہے تو وہ نوٹس کہاں ہے؟ یہ پلاٹ پاکستان تحریک انصاف کے نام پر منتقل کر دیا گیاہے، کمرشل پلاٹ ہے جہاں پر پی ٹی آئی کا دفتر موجود ہے، کوئی کمرشل مقاصد نہیں، جس جگہ انہوں نے تجاوزات واگزار کرنے کا کہا ہے وہاں گاڑیوں کی کھڑی کرنے کے لئے ایک شیلٹرلگا تھا۔ 23 مئی 2024 کو اچانک رات سوا گیارہ بجے سی ڈی اے نے دفتر سیل کردیا۔
وکیل سی ڈی اےنےکہاکہ انہوں نے خود مانا کہ انہوں نے کمرشل پلاٹ خریدا،اسکا استعمال ہی تبدیل کردیا، کمرشل پلاٹ کو پارٹی کےلئے استعمال کیا گیا جس سے وہاں کے لوگ متاثر ہورہے ہیں۔
عدالت نےکہاکہ کونسے نوٹس میں کہا ہے کہ اس پلاٹ کو آپ کسی اور مقصد کےلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا ؟ 
وکیل نےکہاکہ کمرشل پلاٹ کو سیاسی دفتر بنانے کا غلط استعمال ٹھیک ہے بس ہمارے مختلف دستخط غلط ہیں۔
وکیل سی ڈی اےنےکہاکہ سی ڈی اے کا لیگل پریم ورک ہے اور وہ ایسے چیزوں پر نوٹسسز کرتے ہیں۔

عدالت نےاستفسارکیاکہ اگر کسی نے پلاٹ کرایہ پر دیا ہوا ہو تو نوٹس کس کو جائے گا؟  ہم نے کئی کیسسز دیکھے کہ سی ڈی اے کبھی ایک کو نوٹس کرتے ہیں کبھی دوسرے کو، سی ڈی اے ایسے معاملات پر مالک اور کرایہ دار کو نوٹسسز کیوں نہیں کرتے تاکہ یہ معاملہ ایک ہی بار میں ختم ہو۔
وکیل سی ڈی اےنےموقف اختیارکیاکہ پہلی بات یہ کہ جتنی اجازت دی گئی انہوں نے اوپر مزید تعمیر کی، سب سیکٹر میں چھوٹے چھوٹے شاپنگ مالز بنانے کی اجازت ہوتی ہے،انہوں نے سی ڈی اے رولز کی خلاف ورزی کی ہے،انکو اپنا آپ رول ماڈل بنانا چاہیے، ان کے بہت سارے کارکنان آتے ہیں اور دیکھتے ہیں،سی ڈی اے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے نوٹس پر انکو اپنا کنڈکٹ درست کرنا چاہیے، اگر انہوں نے اپنا ہی کرنا ہے تو وہاں دیگر کمرشل پلاٹ کا بھی کوئی کمرشل استعمال نہیں کرے گا، اگر سی ڈی اے نے نوٹس کیا تو آپ سی ڈی اے آئے قانونی طریقہ کار اپنائے۔
شعیب شاہین نےکہاکہ ان کے پاس پی ٹی آئی کے نام آج بھی ایک نوٹس موجود نہیں۔
  عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

مزیدخبریں