ریاست ججز کو جوابدہ نہیں، سب کی حب الوطنی نظر آنی چاہیے،عرفان قادر

Jun 03, 2023 | 12:14 PM

ایک نیوز: وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ریاست ججز کو جوابدہ نہیں ہے۔ چند ہم خیال ججز کا گروپ ایک مخصوص سیاسی گروہ کیلئے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ صبر سے عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں۔ اسے ریاست کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔ 

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر نے گورنرہاؤس میں پریس کانفرنس کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں ملک ترقی کرے اور ریاستی ادارے اپنی حدود و قیود میں رہ کر کام کریں۔ فرد واحد کسی بھی ادارے پر حاوی نہ ہو۔ اقتدار میں موجود شخص اور باہر بیٹھے کو بھی ریاست کا وفادار رہنا ہے۔ ریاست پر آئین جواب دیتا ہے اور وفاقی حکومت، پارلیمنٹ ، صوبائی حکومت  واسمبلیاں تمام ادارے جو لوکل ٹیکس وصول کرتے ہیں وہ ریاست میں آتے ہیں۔ 

انہوں ںے کہا کہ افسوس ہے کہ چند مخصوص لوگ جن کےلئے ہم خیال کا لفظ استعمال ہو رہا ہے وہ ریاست میں مداخلت کررہے ہیں اور لگتا ہے کہ وہ مخصوص سیاسی دھڑے کی طرف مبذول ہیں۔ سیاسی دھڑے کے رفقاء کار علیحدگی کرلی لیکن چند ہم خیال ججز اپنے فیصلوں سے اس دھڑے کی طرف نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہم سے مقدمات میں سوال کیاجاتا ہے کہ حکومت کیا کررہی ہے؟ قانون سازی میں کہاجاتا ہے کہ مشاوت کیوں نہیں کرلی جاتی۔ ریاست ججز کو جواب دہ نہیں ہے سب کی حب الوطنی سامنے نظر آنی چاہیے۔ ججز حکومت کو پوچھ نہیں سکتے وگرنہ 7آرٹیکل کی خلاف ورزی ہے۔ ہم آئین سے بڑے نہیں ہیں بلکہ آئین کے تابع ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کو ججز کی طرف سے کہا گیا کہ قانون سازی پر ہم سے کیوں نہیں پوچھا جاتا؟ عدلیہ قانون کے سامنے سر خم تسلیم کرے۔ اگر قانون کے خلاف کوئی بات ہے تو بتائیں شق کو ٹھیک کیاجائے۔ پارلیمنٹ اور حکومت ریاست ہے۔ عدالت کا ذکر ریاست میں نہیں ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ ججز سمجھتے ہیں کہ ہم آئین وریاست سے اوپر ہیں۔ قانون سازی کیسے کی جانی چاہیے یہ سوچ غیر آئینی ہے۔ قانون کی خلاف ورزی تو تب ہوتی ہے جب آئین پر عمل نہیں ہوتا۔ اگر ججز چاہتے ہیں پارلیمنٹ پوچھے کہ قانون کیسے بنانا ہے تو پارلیمنٹ بھی ججز سے پوچھے گی کہ فیصلوں کو چیلنج کرنا ہے یا نہیں۔ عدلیہ کو اس طرف نہ لے جائیں گے کہ وہ کمزور ہوجائے۔ 

انہوں نے الزام عائد کیا کہ مخصوص ججز نے خود ہی بنچز بناکر کیسز شروع کر دیے اور وکیل بھی ساتھ ملا لئے ہیں۔ جب کسی ادارے نے کوشش کی کہ وکیل کیاجائے تو کہہ دیا گیا کہ الیکشن کمیشن میں وکیل نہیں کرسکتے۔ اٹارنی جنرل بہت صبر سے کام لے رہے ہیں۔ کوئی انا کا مسئلہ نہیں بنا رہے۔ خدارا اگر تمیز سے عدالت میں پیش ہو رہے ہیں تو ریاست کمزور نہیں ہے۔ 

انہوں نے سوال کیا کہ آئین میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ الیکشن کی تاریخ کااعلان کریں۔ عدالت میں میری بات سننے کے بعد بھی آئین کی خود ہی تاریخ دیدی گئی۔ کہاں لکھا ہے الیکشن صدر، گورنر یا سپریم کورٹ دے گا؟ کے پی الیکشن پر کہا تاریخ گورنر دیں گے، پنجاب میں الیکشن کے صدر پاکستان تاریخ دیں گے۔ یہ تب ہوگا جب صوابدید میں اسمبلی تحلیل ہوگی۔ 

انہوں ںے واضح کیا کہ الیکشن پاکستان میں اکٹھے ہی ہوں گے۔ اگر اسمبلی کی دو تین سال پہلے تحلیل ہوجاتی تو سمجھ میں آتی ہے۔ قومی اسمبلی کی مدت اگست میں پوری ہوگی تو آرام سے الیکشن ہو جائیں گے۔ لگتاہے ایک دھڑے کو فائدہ اور سیاسی بیانیہ کو مضبوط کرنے کی پلاننگ کی گئی۔ اسمبلیاں تحلیل کرکے کامیاب نہ ہوئے تو استعفیٰ دے دئیے جس پر لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیدیا کہ وہ جج کےبھی مبینہ طورپر آڈیو ٹیپس ہیں۔ 

استعفوں والی پارٹی نے خود کہاکہ اسد عمر سپیکر قومی اسمبلی سے ملے اور زبردستی استعفوں والوں کے استعفے قبول ہوئے۔ اسد عمر نے سپیکر کو کہاکہ استعفے منظور کریں تو پھر کہا گیا کہ استعفے واپس کریں تو وہ کیسے ہو سکتا ہے۔ عدلیہ غیر جانبدار فیصلے کریں آڈیو لیکس سے اس بات کو تقویت ملی کہ خاص ججز کو منظور نظر اور کچھ کو اوپر لایا جارہا ہے۔

مزیدخبریں